ETV Bharat / city

Delimitation Commission Draft : حد بندی کمیشن سفارشات پر کشمیری سیاسی تجزیہ کاروں کا ردعمل - ڈاکٹر شیخ شوکت حسین ردعمل حد بندی کمیشن

کشمیر کے بیشتر سیاستدانوں ور سیاسی تجزیہ کار حد بندی کمیشن کے سفارشات Delimitation Commission Draft کو کشمیر کی سیاسی مرکزیت اور بالادستی پر حملہ قرار دیا ہیں اور یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ 5 اگست 2019 سے مرکزی حکومت کشمیریوں کو بے اختیار بنانے کے لیے شروع کیے گئے اقدامات کے سلسلے کا ایک اور حصہ ہے۔

how-experts-react-on-delimitation-commission-draft-proposal-in-j-and-k
د بندی کمیشن سفارشات پر کشمیری سیاسی تجزیہ کار کا ردعمل
author img

By

Published : Dec 21, 2021, 7:37 PM IST

Updated : Dec 22, 2021, 12:10 PM IST

گزشتہ روز مرکزی حکومت کی جانب سے تشکیل شدہ حدبندی کمیشن Delimitation Commission Draft نے جموں خطے کے لیے 6 اضافی اسمبلی نشتوں جبکہ کشمیر خطے کی لیے صرف ایک اضافی نشت کی تجویز کے ڈارفت کو ایسوایٹ ممبران کو پیش کیا ہے، جس کے بعد جموں و کشمیر میں سیاسی اور عوام کی جانب سے وسیع پیمانے پر تنقید ہو رہی ہے۔

حد بندی کمیشن سفارشات پر کشمیری سیاسی تجزیہ کار کا ردعمل


بیشتر سیاستدان اور سیاسی مبصرین کمیشن کی اس تجویز کو کشمیر کی سیاسی مرکزیت اور بالادستی پر حملہ مانتے ہیں اور یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ 5 اگست 2019 سے بی جے پی کی زیر قیادت حکومت نے کشمیریوں کو بے اختیار کرنے کے لیے شروع کیے گئے اقدامات کے سلسلے کا ایک اور حصہ ہے۔



سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار گوہر گیلانی Gowhar Geelani کا کہنا ہے کہ "پوری دنیا میں حدبندی کی بنیاد آبادی پر ہوتا ہے۔ آبادی کے تحت ہی یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیسے اور کتنی نشتیں بڑائی جا سکتی ہیں۔"



اُن کا کہنا ہے کہ "سنہ 2011 میں ہوئی مردم شماری census 2011 کو اگر نظر میں رکھ کر دیکھے جائے تو وادی کشمیر کی آبادی جموں سے 15 لاکھ زیادہ ہے۔ ایسے میں اگر جموں کو 6 اور کشمیر کو صرف ایک دی گئی ہے تو یہ استحصال ہے۔ دوسرا آپ دیکھیے سیاسی بے اختیاری، جس طریقے سے سیاسی طور پر بھی کشمیر کے ساتھ یہ ناانصافی کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو بنیاد انہوں نے لین اف کنٹرول کی قبرت اور دیگر باتوں کو رکھا گیا ہے، یہ بالکل بے اختیاری ہے۔ جو ہند نواز سیاستدان ہیں اُن کے لیے تبوڈ کا کیل ثابت ہو سکتا ہے۔"

واضع رہے کہ گزشتہ روز دارلحکومت دہلی میں کمیشن کی میٹنگDelimitation Commission Meeting کے بعد جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ کمشن نے جموں کے لیے چھ اضافی اور کشمیر کے لیے ایک نشست تجویز کی ہے۔" اس میٹنگ میں نیشنل کانفرنس کے تین اور بی جے پی کے دو رکن پارلیمان بھی موجود تھے۔



نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان جسٹس (ریٹائرڈ) حسنین مسعودی Hasnain Masoodi نے ای ٹی وی بھارت کو فون پر بتایا کہ "کشمیر کو صرف ایک اضافی نشت دینے کی سفارش کی گئی ہے اور جموں کو چھ۔ کمشن نے ہم کو دسمبر مہینے کی 31 تاریخ تک اس پر اپنا جواب دینے کا وقت دیا ہے۔"



اُن کا مزید کہنا ہے کہ "یہ تجویز ہمارے لیے ناقابل قبول ہے کیونکہ آبادی کے لحاظ سے کشمیر جموں سے زیادہ نشستوں کا حقدار ہے۔"


قبل ذکر ہے کہ اس تجویز سے جموں میں اسمبلی سیٹوں کی تعداد موجودہ 37 سے 43 اور کشمیر میں 46 سے بڑھ کر 47 ہو جائے گی۔ وہیں کمیشن نے جموں خطے کے کٹھوعہ، سانبہ، ادھم پور، ڈوڈہ، کشتواڑ اور راجوری اضلاع اور وادی کشمیر کے کپواڑہ میں ایک ایک نشست بڑھانے کی تجویز پیش کی ہے۔



دلچسپ بات ہے کہ کٹھوعہ، سانبہ اور ادھم پور کے حصے ہندو اکثریتی حلقے ہوں گے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، کٹھوعہ میں 87.61 فیصد ہندو آبادی ہے، جبکہ سامبہ اور ادھم پور میں 86.33 فیصد اور 88.12فیصد آبادی ہندو ہے۔ کشتواڑ، ڈوڈہ اور راجوری اضلاع میں بھی ہندو آبادی 34 فیصد اور 45 فیصد کے درمیان ہے۔



اس حوالے سے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے تعزیہ نگار ڈاکٹر شیخ شوکت حسین Dr Sheikh Showkat کا کہنا ہے کہ " جموں و کشمیر میں قانونی طور پر یہ تائی تھا کہ حدبندی سنہ 2026 کے بعد ہی ہوگی،لیکن مرکزی حکومت نے سنہ 2019 کے پانچ اگست کو لیے گیے فیصلے کی وجہ سے حدبندی کا عمل شروع کیا،جب کہ بھارت میں کسی بھی جگہ اس کو قبل از وقت نہیں کیا گیا۔ "



ڈاکٹر حسین کا کہنا ہے کہ "چونکہ مرکزی حکومت ایک ہندو راشٹر وادی حکومت ہے اور ایسے میں کسی علاقے میں اقلیتیوں کی اکثریت ہو اور وہاں اقلیتیوں کی حکومت ہو، یہ ہضم کرنا بی جے پی والی مرکز حکومت کے لیے تھوڑا مُشکل ہے۔ اس وجہ سے حدبندی رپورٹ کا ایسا ہونا متوقع تھا۔ رپورٹ کے ذریعے اقلیتیوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے گا۔"

جموں کو زیادہ نشتیں دینے اور کشمیر کو کم ملنے کی وجہ پر بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ "اگرچہ جموں میں مسلمانوں کی اکثریت نہیں ہے لیکن کئی ایسے اضلاع ہیں جہاں مسلمان زیادہ ہیں۔ سیٹیں وہاں زیادہ دی گئی۔ تو صاف ہے جو بی جے پی کہتی آرہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں یہاں ہندو وزیر اعلیٰ ہونے، یہ اسی خاکے میں تکمیل کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پریشانی یہ ہے کہ کو ہماری مقامی خواہشوں کی نمائندگی کرنے والی پارٹیاں بھی اس کو جائز بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ جانتے ہوئے اس کا مقصد کیا ہے، وہ اس کا حصہ بن گئے اور اب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں قبول نہیں۔"

مزید پڑھیں:Delimitation Commission Draft: حد بندی کمیشن کی سفارش، جموں کو 6 اسمبلی سیٹیں، کشمیر کو فقط ایک

اُن کا مزید کہنا ہے کہ 'اب یہ انہی ہند نواز پارٹیوں پر ہے کہ وہ اپنے مطالبات کو کتنے حد تک منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے وہ بی تب اگر انہوں نے زبان جمعہ خرچ کیا۔'

ان کا کہنا ہے کہ ' اگر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی تو وہ (مرکز) من بنا چکے ہیں۔ صرف اس میں معمولی تبدیلی کی جاسکتی ہیں، زیادہ کچھ نہیں۔ '

انہوں نے کہا' یہ اب اُن لوگوں تک ہے جنہوں نے آج تک خودمختاری کے نام پر ووٹ حاصل کیے ہیں کہ وہ دہلی کو کیسے مجبور کرتے ہیں۔'

گزشتہ روز مرکزی حکومت کی جانب سے تشکیل شدہ حدبندی کمیشن Delimitation Commission Draft نے جموں خطے کے لیے 6 اضافی اسمبلی نشتوں جبکہ کشمیر خطے کی لیے صرف ایک اضافی نشت کی تجویز کے ڈارفت کو ایسوایٹ ممبران کو پیش کیا ہے، جس کے بعد جموں و کشمیر میں سیاسی اور عوام کی جانب سے وسیع پیمانے پر تنقید ہو رہی ہے۔

حد بندی کمیشن سفارشات پر کشمیری سیاسی تجزیہ کار کا ردعمل


بیشتر سیاستدان اور سیاسی مبصرین کمیشن کی اس تجویز کو کشمیر کی سیاسی مرکزیت اور بالادستی پر حملہ مانتے ہیں اور یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ 5 اگست 2019 سے بی جے پی کی زیر قیادت حکومت نے کشمیریوں کو بے اختیار کرنے کے لیے شروع کیے گئے اقدامات کے سلسلے کا ایک اور حصہ ہے۔



سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار گوہر گیلانی Gowhar Geelani کا کہنا ہے کہ "پوری دنیا میں حدبندی کی بنیاد آبادی پر ہوتا ہے۔ آبادی کے تحت ہی یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیسے اور کتنی نشتیں بڑائی جا سکتی ہیں۔"



اُن کا کہنا ہے کہ "سنہ 2011 میں ہوئی مردم شماری census 2011 کو اگر نظر میں رکھ کر دیکھے جائے تو وادی کشمیر کی آبادی جموں سے 15 لاکھ زیادہ ہے۔ ایسے میں اگر جموں کو 6 اور کشمیر کو صرف ایک دی گئی ہے تو یہ استحصال ہے۔ دوسرا آپ دیکھیے سیاسی بے اختیاری، جس طریقے سے سیاسی طور پر بھی کشمیر کے ساتھ یہ ناانصافی کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو بنیاد انہوں نے لین اف کنٹرول کی قبرت اور دیگر باتوں کو رکھا گیا ہے، یہ بالکل بے اختیاری ہے۔ جو ہند نواز سیاستدان ہیں اُن کے لیے تبوڈ کا کیل ثابت ہو سکتا ہے۔"

واضع رہے کہ گزشتہ روز دارلحکومت دہلی میں کمیشن کی میٹنگDelimitation Commission Meeting کے بعد جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ کمشن نے جموں کے لیے چھ اضافی اور کشمیر کے لیے ایک نشست تجویز کی ہے۔" اس میٹنگ میں نیشنل کانفرنس کے تین اور بی جے پی کے دو رکن پارلیمان بھی موجود تھے۔



نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان جسٹس (ریٹائرڈ) حسنین مسعودی Hasnain Masoodi نے ای ٹی وی بھارت کو فون پر بتایا کہ "کشمیر کو صرف ایک اضافی نشت دینے کی سفارش کی گئی ہے اور جموں کو چھ۔ کمشن نے ہم کو دسمبر مہینے کی 31 تاریخ تک اس پر اپنا جواب دینے کا وقت دیا ہے۔"



اُن کا مزید کہنا ہے کہ "یہ تجویز ہمارے لیے ناقابل قبول ہے کیونکہ آبادی کے لحاظ سے کشمیر جموں سے زیادہ نشستوں کا حقدار ہے۔"


قبل ذکر ہے کہ اس تجویز سے جموں میں اسمبلی سیٹوں کی تعداد موجودہ 37 سے 43 اور کشمیر میں 46 سے بڑھ کر 47 ہو جائے گی۔ وہیں کمیشن نے جموں خطے کے کٹھوعہ، سانبہ، ادھم پور، ڈوڈہ، کشتواڑ اور راجوری اضلاع اور وادی کشمیر کے کپواڑہ میں ایک ایک نشست بڑھانے کی تجویز پیش کی ہے۔



دلچسپ بات ہے کہ کٹھوعہ، سانبہ اور ادھم پور کے حصے ہندو اکثریتی حلقے ہوں گے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، کٹھوعہ میں 87.61 فیصد ہندو آبادی ہے، جبکہ سامبہ اور ادھم پور میں 86.33 فیصد اور 88.12فیصد آبادی ہندو ہے۔ کشتواڑ، ڈوڈہ اور راجوری اضلاع میں بھی ہندو آبادی 34 فیصد اور 45 فیصد کے درمیان ہے۔



اس حوالے سے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے تعزیہ نگار ڈاکٹر شیخ شوکت حسین Dr Sheikh Showkat کا کہنا ہے کہ " جموں و کشمیر میں قانونی طور پر یہ تائی تھا کہ حدبندی سنہ 2026 کے بعد ہی ہوگی،لیکن مرکزی حکومت نے سنہ 2019 کے پانچ اگست کو لیے گیے فیصلے کی وجہ سے حدبندی کا عمل شروع کیا،جب کہ بھارت میں کسی بھی جگہ اس کو قبل از وقت نہیں کیا گیا۔ "



ڈاکٹر حسین کا کہنا ہے کہ "چونکہ مرکزی حکومت ایک ہندو راشٹر وادی حکومت ہے اور ایسے میں کسی علاقے میں اقلیتیوں کی اکثریت ہو اور وہاں اقلیتیوں کی حکومت ہو، یہ ہضم کرنا بی جے پی والی مرکز حکومت کے لیے تھوڑا مُشکل ہے۔ اس وجہ سے حدبندی رپورٹ کا ایسا ہونا متوقع تھا۔ رپورٹ کے ذریعے اقلیتیوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے گا۔"

جموں کو زیادہ نشتیں دینے اور کشمیر کو کم ملنے کی وجہ پر بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ "اگرچہ جموں میں مسلمانوں کی اکثریت نہیں ہے لیکن کئی ایسے اضلاع ہیں جہاں مسلمان زیادہ ہیں۔ سیٹیں وہاں زیادہ دی گئی۔ تو صاف ہے جو بی جے پی کہتی آرہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں یہاں ہندو وزیر اعلیٰ ہونے، یہ اسی خاکے میں تکمیل کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پریشانی یہ ہے کہ کو ہماری مقامی خواہشوں کی نمائندگی کرنے والی پارٹیاں بھی اس کو جائز بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ جانتے ہوئے اس کا مقصد کیا ہے، وہ اس کا حصہ بن گئے اور اب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں قبول نہیں۔"

مزید پڑھیں:Delimitation Commission Draft: حد بندی کمیشن کی سفارش، جموں کو 6 اسمبلی سیٹیں، کشمیر کو فقط ایک

اُن کا مزید کہنا ہے کہ 'اب یہ انہی ہند نواز پارٹیوں پر ہے کہ وہ اپنے مطالبات کو کتنے حد تک منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے وہ بی تب اگر انہوں نے زبان جمعہ خرچ کیا۔'

ان کا کہنا ہے کہ ' اگر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی تو وہ (مرکز) من بنا چکے ہیں۔ صرف اس میں معمولی تبدیلی کی جاسکتی ہیں، زیادہ کچھ نہیں۔ '

انہوں نے کہا' یہ اب اُن لوگوں تک ہے جنہوں نے آج تک خودمختاری کے نام پر ووٹ حاصل کیے ہیں کہ وہ دہلی کو کیسے مجبور کرتے ہیں۔'

Last Updated : Dec 22, 2021, 12:10 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.