ETV Bharat / state

مطلقہ خاتون کے نفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ شریعت میں مداخلت ہے: مختلف علماء کا بیان - Divorced Woman Maintenance - DIVORCED WOMAN MAINTENANCE

ریاست اترپردیش کے دار الحکومت لکھنو میں ندوۃ العلماء کے علمی وتحقیقی شعبہ مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے طلاق شدہ خاتون کے نفقہ سے متعلق بیسواں مذاکرہ منعقد کیا گیا جس میں مختلف علماء کرام نے طلاق شدہ مسلم خاتون کے نان ونفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر رد عمل کا اظہار کیا۔ اور وقف بورڈ سے مطلقہ خاتون کو نفقہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

ندوۃ العلماء کے علمی وتحقیقی شعبہ
ندوۃ العلماء کے علمی وتحقیقی شعبہ (Etv bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 28, 2024, 5:35 PM IST

لکھنو: آج پوری دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے، ہماری عدالتوں میں کئے گئے فیصلے پوری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں، شاہ بانو کیس کا مسئلہ صرف اتنا نہیں تھا کہ ایک عورت کے گزارہ کا انتظام کیا جائے ، بلکہ نفقہ سے متعلق قرآنی آیات کی من مانی تشریح کی گئی، جس کی وجہ سے پورے ملک کے علماء نے اس خلاف ایک منظم تحریک چلائی تھی، ملکی قوانین کے ساتھ اسلامی شریعت کیا کہتی ہے ہمیں اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے، اسلامی قوانین میں تبدیلی کرنے کی گنجائش نہیں ہے، شریعت میں مداخلت کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہے، ان خیالات کا اظہار مولانا عتیق احمد بستوی سکریٹری مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء نے نفقہ مطلقہ: شرعی اور قانونی نقطہ نظر کے موضوع پر ہونے والے مذاکرہ میں کیا۔

مولانا عتیق احمد بستوی (Etv bharat)

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا عتیق بستوی نے کہا کہ شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اس کے بعد قانون بنا تھا جس میں اصلاح کی گئی تھی لیکن اب جب پھر سپریم کورٹ نے نفقہ کے تعلق سے فیصلہ سنایا ہے تو اسی فیصلے کو دوبارہ بیان کر دیا ہے اور یہ شریعت میں مداخلت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مطلقہ عورت کے لیے ایسا نہیں ہے کہ اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے بلکہ عدت پوری ہونے کے بعد متعلقہ عورت اپنے ماں باپ کے پاس رہے، ماں باپ کو وراثت میں حق دینا چاہیے اور اس وقت جو قانون بنایا گیا تھا اس ایکٹ میں یہ بھی تھا کہ مطلقہ عورت کو وقف بورڈ سے بھی مالی مدد کی جائے تاکہ مطلقہ عورت کے اخراجات چل سکیں.

ندوۃ العلماء کے علمی وتحقیقی شعبہ مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے بیسواں مذاکرہ نفقہ مطلقہ کے عنوان سے رکھا گیا، جس میں مولانا عتیق احمد بستوی، پروفیسر سیم احمد جعفری ڈین فیکلٹی آف لا انگرل یونیورسیٹی اور ہائی کورٹ لکھنو کے وکیل ایڈوکیٹ اوصاف احمد خان نے لکچرس پیش کئے، مولانا عتیق احمد بستوی نے مزید کہا کہ اسلام میں نفقہ کا مکمل نظام موجود ہے، طلاق کے بعد عدت تک اس کا نفقہ اس کے شوہر پر لازم ہے، عدت کے بعد کی کوئی ذمہ داری اس کے شوہر پر نہیں ہوگی، سوائے اس کے کہ مطلقہ عورت کے گود میں شوہر کی کوئی چھوٹی اولاد ہو جس کی پرورش مطلقہ کر رہی ہو تو وہ رضاعت اور حضانت کی مدت تک نان و نفقہ کی مستحق ہو گی۔

مولانا نے مزید کہا کہ مسلمان شریعت پر عمل کریں تو مسلمانوں کے بہت سے مسائل خود حل ہو جائیں گے کسی عورت کو طلاق ہو جائے تو طلاق کے بعد بھی وہ اپنے باپ کی بیٹی اور اپنے بھائی کی بہن ہوتی ہے، اور جس گھر سے وہ رخصت ہو کر گئی ہے واپس اس کو وہیں آنا ہے، مطلقہ عورت کے نفقہ کی ذمہ داریاں اس کے والد اور بھائیوں پر ہوتی ہے، اگر عورتوں کو میراث میں حصہ دیا جائے تو مطلقہ عورت کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو جائے گا، بعض صوبوں میں زرعی زمینوں میں قانونی طور پر عورتوں کو میراث میں حصہ نہیں ملتا ہے، ایسی صورت میں وصیت کے قانون کا استعمال کرتے ہوئے عورتوں کو میراث میں حصہ دیا جانا چاہیے۔

مولانا نے اوقاف کے حوالے سے کہا کہ اوقاف کی بڑی جائیداد میں مسلمانوں کے پاس ہیں ، اس کا ایک دو ، حصہ بھی صحیح طریقہ پر خرچ کیا جائے تو مسلمانوں کے بہت سے تعلیمی، سماجی اور اقتصادی مسائل حل ہوں گے۔ پروفیسر نسیم احمد جعفری اور ایڈوکیٹ اوصاف احمد خان نے نفقہ مطلقہ سے متعلق قوانین اور عدالتوں کے فیصلوں کو تفصیل سے بیان کیا۔ اور واضح کیا کہ نفقہ مطلقہ کے بارے میں قوانین کیا ہیں، اور اس کا پس منظر کیا ہے، ایڈوکیٹ اوصاف احمد خان خاص طور پر زور دیا کہ مسلمان شریعت پر عمل نہیں کریں گے، تو ان کے شرعی نظام کے خلاف مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ مولانا مفتی ظفر عالم ندوی نے نظامت کرتے ہوئے کہا کہ نفقہ مطلقہ کے حوالے سے ہمارے علماء کرام نے جو قانونی جدو جہد کی ہے ہمیں ان سے واقف ہونا چاہئے مجلس تحقیقات شرعیہ کے آفس سکریٹری مولانا منور سلطان ندوی نے مہمانوں کا استقبال کیا، تلاوت سے پروگرام کا آغاز اور مولانا عتیق احمد بستوی کی دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا۔

لکھنو: آج پوری دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے، ہماری عدالتوں میں کئے گئے فیصلے پوری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں، شاہ بانو کیس کا مسئلہ صرف اتنا نہیں تھا کہ ایک عورت کے گزارہ کا انتظام کیا جائے ، بلکہ نفقہ سے متعلق قرآنی آیات کی من مانی تشریح کی گئی، جس کی وجہ سے پورے ملک کے علماء نے اس خلاف ایک منظم تحریک چلائی تھی، ملکی قوانین کے ساتھ اسلامی شریعت کیا کہتی ہے ہمیں اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے، اسلامی قوانین میں تبدیلی کرنے کی گنجائش نہیں ہے، شریعت میں مداخلت کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہے، ان خیالات کا اظہار مولانا عتیق احمد بستوی سکریٹری مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء نے نفقہ مطلقہ: شرعی اور قانونی نقطہ نظر کے موضوع پر ہونے والے مذاکرہ میں کیا۔

مولانا عتیق احمد بستوی (Etv bharat)

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا عتیق بستوی نے کہا کہ شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے اس کے بعد قانون بنا تھا جس میں اصلاح کی گئی تھی لیکن اب جب پھر سپریم کورٹ نے نفقہ کے تعلق سے فیصلہ سنایا ہے تو اسی فیصلے کو دوبارہ بیان کر دیا ہے اور یہ شریعت میں مداخلت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مطلقہ عورت کے لیے ایسا نہیں ہے کہ اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے بلکہ عدت پوری ہونے کے بعد متعلقہ عورت اپنے ماں باپ کے پاس رہے، ماں باپ کو وراثت میں حق دینا چاہیے اور اس وقت جو قانون بنایا گیا تھا اس ایکٹ میں یہ بھی تھا کہ مطلقہ عورت کو وقف بورڈ سے بھی مالی مدد کی جائے تاکہ مطلقہ عورت کے اخراجات چل سکیں.

ندوۃ العلماء کے علمی وتحقیقی شعبہ مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے بیسواں مذاکرہ نفقہ مطلقہ کے عنوان سے رکھا گیا، جس میں مولانا عتیق احمد بستوی، پروفیسر سیم احمد جعفری ڈین فیکلٹی آف لا انگرل یونیورسیٹی اور ہائی کورٹ لکھنو کے وکیل ایڈوکیٹ اوصاف احمد خان نے لکچرس پیش کئے، مولانا عتیق احمد بستوی نے مزید کہا کہ اسلام میں نفقہ کا مکمل نظام موجود ہے، طلاق کے بعد عدت تک اس کا نفقہ اس کے شوہر پر لازم ہے، عدت کے بعد کی کوئی ذمہ داری اس کے شوہر پر نہیں ہوگی، سوائے اس کے کہ مطلقہ عورت کے گود میں شوہر کی کوئی چھوٹی اولاد ہو جس کی پرورش مطلقہ کر رہی ہو تو وہ رضاعت اور حضانت کی مدت تک نان و نفقہ کی مستحق ہو گی۔

مولانا نے مزید کہا کہ مسلمان شریعت پر عمل کریں تو مسلمانوں کے بہت سے مسائل خود حل ہو جائیں گے کسی عورت کو طلاق ہو جائے تو طلاق کے بعد بھی وہ اپنے باپ کی بیٹی اور اپنے بھائی کی بہن ہوتی ہے، اور جس گھر سے وہ رخصت ہو کر گئی ہے واپس اس کو وہیں آنا ہے، مطلقہ عورت کے نفقہ کی ذمہ داریاں اس کے والد اور بھائیوں پر ہوتی ہے، اگر عورتوں کو میراث میں حصہ دیا جائے تو مطلقہ عورت کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو جائے گا، بعض صوبوں میں زرعی زمینوں میں قانونی طور پر عورتوں کو میراث میں حصہ نہیں ملتا ہے، ایسی صورت میں وصیت کے قانون کا استعمال کرتے ہوئے عورتوں کو میراث میں حصہ دیا جانا چاہیے۔

مولانا نے اوقاف کے حوالے سے کہا کہ اوقاف کی بڑی جائیداد میں مسلمانوں کے پاس ہیں ، اس کا ایک دو ، حصہ بھی صحیح طریقہ پر خرچ کیا جائے تو مسلمانوں کے بہت سے تعلیمی، سماجی اور اقتصادی مسائل حل ہوں گے۔ پروفیسر نسیم احمد جعفری اور ایڈوکیٹ اوصاف احمد خان نے نفقہ مطلقہ سے متعلق قوانین اور عدالتوں کے فیصلوں کو تفصیل سے بیان کیا۔ اور واضح کیا کہ نفقہ مطلقہ کے بارے میں قوانین کیا ہیں، اور اس کا پس منظر کیا ہے، ایڈوکیٹ اوصاف احمد خان خاص طور پر زور دیا کہ مسلمان شریعت پر عمل نہیں کریں گے، تو ان کے شرعی نظام کے خلاف مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ مولانا مفتی ظفر عالم ندوی نے نظامت کرتے ہوئے کہا کہ نفقہ مطلقہ کے حوالے سے ہمارے علماء کرام نے جو قانونی جدو جہد کی ہے ہمیں ان سے واقف ہونا چاہئے مجلس تحقیقات شرعیہ کے آفس سکریٹری مولانا منور سلطان ندوی نے مہمانوں کا استقبال کیا، تلاوت سے پروگرام کا آغاز اور مولانا عتیق احمد بستوی کی دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.