لکھنؤ: حضرت گنج کے امام باڑہ شاہ نجف میں منعقدہ مجلس کے بعد حسینی دستہ ہاتھ میں علم لیے اور حسین یا حسین کی صدا بلند کرتے اور نعرے لگاتے جلتے انگاروں کے اوپر سے گزرنے لگا۔ تقریباً 3 گھنٹے تک کئی کوئنٹل لکڑی جلا کر آگ کے انگاروں کو تیار کیا گیا۔ اس پر 25 افراد نے یا حسین کے نعرے لگاتے ہوئے ماتم کیا۔
شیعہ مذہبی رہنما مولانا فرید الحسن نے کہا کہ کربلا میں حضرت امام حسینؓ اور ان کے 72 ساتھیوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد جب جنگ ختم ہوئی تو ان کے خیمے کو آگ لگا دی گئی۔ یزیدی فوجیوں نے امام حسین کے اہل خانہ بالخصوص خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی جو اسلام اور انسانیت کی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ ہے۔
مولانا نے کہا کہ اسی کیمپ کے آگ کو یاد کر کے لوگ آج بھی آگ پر ماتم کرتے ہیں۔ اس میں شیعہ طبقے کے علاوہ دیگر لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ آگ کے ماتم کی روایت برما سے شروع ہوئی جہاں پر محرم کے ایام میں لوگ آگ پر چل کر کے امام حسین اور ان کے 72 جانثار ساتھیوں کو یاد کرتے ہیں خاص طور سے حضرت امام حسین کی چھوٹی بیٹی حضرت سکینہ اور ان کی بہن زینب کو یاد کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لکھنؤ میں یہ روایت گزشتہ 60 برسوں سے جاری ہے۔ آج بھی ایام محرم میں لوگ آگ پر چل کر کے ماتم کرتے ہیں اور یا حسین یا سکینہ کی صدا بلند کرتے ہیں۔ لکھنو کے شاہ نجف امام باڑے میں جوش و خروش کے ساتھ لوگوں نے شرکت کی جہاں پر بچے خواتین بوڑھے اور نوجوان کثیر تعداد میں موجود رہے۔
یہ بھی پڑھیں: محرم الحرام اور بینروں پر کربلا سے متعلق تحریریں
ان کا مزید کہنا تھا کہ آگ پر چلنے کی وجہ سے نہ ہی پیروں میں کوئی تکلیف ہوتی ہے اور نہ ہی جلن ہوتا ہے۔ پیر میں کچھ لگاتے ہیں۔ امام حسین کو یاد کر کے آگ پر چلنے میں جو خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے، وہ بیان نہیں کیا جا سکتاہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک واقعہ ہے کہ برما میں ایک انگریز فوج نے کہا کہ تم لوگ اپنے پیروں میں کچھ لگا کر آگ پر چلتے ہو۔ اس نے خود بھی آزمانے کی کوشش کی۔ اس کے پیر میں ناسور تھا۔ ناسور بھی ٹھیک ہو گیا تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت امام حسین کی روحانی طاقت کتنی ہے۔