حیدرآباد: امریکی کانگریس (پارلیمنٹ) کا ایک سات رکنی مخلوط پارٹی وفد، ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین، مائیکل میکول کی قیادت میں دھرم شالہ میں دلائی لامہ سے ملاقات کے لیے اس ہفتے کے اوائل میں بھارت آیا تھا۔
اس وفد میں میں ایک رکن کانگریس کی سابق اسپیکر نینسی پالوسی تھیں۔ 19 جون کو وفد نے دلائی لامہ سے ملاقات کرنے سے پہلے جلاوطن تبتی پارلیمنٹ کے اراکین اور جلاوطن تبتی حکومت سے ملاقات کی۔
یہ دورہ ، 12 جون کو امریکہ کے دونوں ایوانوں کی طرف سے "تبت-چونا تنازعات کے حل کے لیے تیار کردہ مسودہ قانون" جس کو "تبت حل مسودہ قانون" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے بعد عمل میں آیا، جس پر واضح طور پر چین برانگیختہ ہوا ہے۔
اس قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ امریکہ تبت کے لوگوں کی چین کے غیر قانونی قبضے کے خلاف کھڑا ہے۔ مسئلہ تبت کے حل سے متعلق مسودہ قانون تبت کے لوگوں کی کثیر جہتی سماجی و ثقافتی شناخت کو پہچاننے اور اس پر توجہ دینے پر مرکوز ہے، خاص طور پر تبت کی مختلف تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور لسانی شناخت اور تبت کے بارے میں چینی غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے فنڈز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔
یہ مسودہ قانون، تبت کی تاریخ، تبتی عوام اور ان کے اداروں بالخصوص دلائی لامہ سے متعلق غلط معلومات کا تدارک کرنے کیلئے بھی فنڈز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔
دلائی لامہ کے دورے پر چین کا ردعمل متوقع طور پر بہت سخت تھا۔ 20 جون کو شائع ہونے والے ایک ادارتی صفحے کے کالم میں چینی حکومت کے ترجمان اخبار، گلوبل ٹائمز نے پیلوسی پر الزام لگایا کہ وہ اصل امریکیوں کے ہولناک انجام کو صرف نظر کرکے ژن جیانگ (تبت) پر غیر ذامہ دارانہ تبصرے کر رہی ہیں۔
اخبار کے مطابق"ریزولو تبت ایکٹ" محض ایک "فضول کاغذ اور خالصتاً خود کو خوش کرنے کی کوشش" ہے۔ دلائی لامہ کو ایک سر تاپا علیحدگی پسند شخص قرار دیتے ہوئے اخبار نے لکھا کہ اس شخص کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے مسترد کیا جاچکا ہے۔
اخبار نے امریکہ کو مشورہ دیا کہ دلائی لامہ کا کارڈ استعمال کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنا اور چین کے لیے رکاوٹیں پیدا کرنا، ان کی محض خام خیالی ہے۔ چین یہ بھی الزام لگاتا ہے کہ دلائی لامہ ایک خالصتاً مذہبی شخصیت بھی نہیں ہیں۔
جب کمیونسٹ چین نے تبت پر حملہ کیا اور 1950 میں اس کا الحاق کیا تو اس نے اس خطے کو تباہ کرنے کا عمل شروع کر دیا۔ زیادہ سے زیادہ ہان لوگوں کو وہاں آباد کر کے علاقے کی آبادی کو تبدیل کرتے ہوئے، چین نے تبتی شناخت کو زبردستی ہان شناخت میں ضم کرنا شروع کر دیا۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لاکھوں تبتی بچوں کو کم عمری میں ہی ان کے والدین سے الگ کر دیا گیا تھا اور انہیں بورڈنگ سکولوں میں بھیج دیا گیا تھا تاکہ وہ کمیونسٹ نظریے میں برین واش ہو جائیں۔
انہیں مینڈارن، کمیونزم سکھایا جاتا تھا اور انہیں تبت کی روایتی ثقافت سے دور رکھا جاتا تھا۔ گدھون گوکی نیاما نامی ایک چھ سالہ لڑکے کی اس مناسبت سے مثال پیش کی جاسکتی ہے جس کی دلائی لامہ نے 1995 میں 11ویں پنچن لامہ کے طور پر پہچان کی تھی (تبتی روایت میں، ہر دلائی لامہ اگلے پنچن لامہ کی پہچان کرتا ہے، جو دلائی لامہ کے بعد دوسری اعلیٰ ترین روحانی شخصیت ہوتی ہے)۔
اس پہچان کے دو دن میں ہی اس لڑکے کو چینی افواج نے اغوا کر لیا اور آج تک اس کا پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کہاں ہے۔ پنچن لامہ کی گمشدگی کے فوراً بعد سیان سین نربھو کو چین نے گیارہویں پنچن لامہ کے طور متعارف کیا جسے واقعتاً دلائی لامہ نے تسلیم نہیں کیا۔ اس پس منظر میں موجودہ پنچن لامہ، چین کو پروردہ ہے۔
چین تبت کی معدنیات میں دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ سطح مرتفع کوئلے، تانبے، کرومیم، لیتھیم، زنک، سیسہ، بوران کے وسیع ذخائر سے پر ہے اور یہ ہائیڈل پاور اور منرل واٹر کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین اس خطے میں بنیادی ڈھانچے کو تیزی سے ترقی دے رہا ہے۔
حالانکہ غیر دانشمندانہ کان کنی اور صنعت کاری نے مقامی آبادی کے اضطراب کو دو چند کر دیا ہے کیونکہ اس سے شدید ماحولیاتی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ مقامی آبادی کا احتجاج اب تک بے سود ثابت ہوا ہے۔ تبت کے وسیع آبی وسائل کے ذریعے چین دریاؤں کے نظام کو کنٹرول کر کے اپنے پڑوسیوں کو بھی شکست دینا چاہتا ہے۔
تبت میں امریکی دلچسپی کوئی نئی بات نہیں ہے، حالانکہ بعض اوقات اس کی توجہ میں کمی بھی واقع ہوئی ہے۔ 1950 سے 1971 تک، امریکہ کی پالیسی کمیونسٹ چین کو ہر ممکن طریقے سے پریشان کرنا تھی اور تبت کا مسئلہ اس کوشش میں ایک موثر ہتھیار ثابت ہوا۔
تاہم، ستر کی دہائی میں دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے لیے گرم جوشی کے ساتھ اور چینی جدیدیت نے امریکہ کے لیے تجارت کے نئے مواقع کھولے۔ اس نے تبت کے مسئلے کو تقریباً تیس سال تک پس پشت چھوڑ دیا۔
لیکن 21 ویں صدی کی آمد کے بعد امریکہ نے پچیس سال سے بھی کم عرصے میں تبت پر دو قراردادیں پاس کیں۔ پہلا، تبت پالیسی ایکٹ، 2002 کے تحت چینی حکومت کی طرف سے تبتیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی نشاندہی کی گئی لیکن اس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ تبت چین کے اندر ایک خود مختار علاقہ ہے۔
دوسرا، ریزولو تبت ایکٹ، جس کا تذکرہ اوپر کی سطور میں کیا گیا ہے۔ اس مسودہ قانون کے مطابق امریکہ چین پر زور دیتا ہے کہ وہ اس کے یا اس کے نمائندوں کے ساتھ پیشگی شرائط کے بغیر بامعنی براہ راست بات چیت شروع کرے۔ اس مسودہ قانون میں دو کنونشنوں کے دستخط کنندہ کے طور پر چین کی ذمہ داری بھی اجاگر کی گئی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ ڈیموکریٹس کی پالیسی کا اساسی نکتہ ہے جس میں انسانی حقوق کو ترجیحی مقام دیا گیا ہے۔ دلائی لامہ، جسے چین کے شدید احتجاج کے باوجود 1989 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا، وہ اس سال اگست میں ایک سرجری کے لیے امریکا کا دورہ کرنے والے ہیں جہاں ان کی امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام اور ممکنہ طور صدر بائیڈن سے بھی ملاقات ہوگی۔
امریکی وفد نے وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کی اور دو طرفہ تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے، ہم نے 1950 سے تبت کو چین کا حصہ تسلیم کیا ہے لیکن خطے کے لیے زیادہ خود مختاری کی حمایت کی ہے۔
دوسری طرف چین ہمیشہ اروناچل پردیش کو اپنی سرزمین کے طور پر دعویٰ کرتا رہا ہے کہ وہ اس علاقے میں ہندوستانی قیادت کے کسی بھی دورے پر ہمیشہ احتجاج کرتا ہے اور ریاست کے باشندوں کے پاسپورٹ پر چینی ویزا لگانے سے بھی انکار کرتا ہے۔
موجودہ صورت حال میں جہاں چین جنوبی چین کے سمندر نیز یوکرین اور اسرائیل پر مغرب کے ساتھ کشمکش اور کشیدگی میں گھرا ہوا ہے، وہ تبت میں کوئی سخت قدم نہیں اٹھائے گا بلکہ وقتاً فوقتاً اس مسئلے کو زندہ رکھے گا، ایسا ہی طریقہ کار امریکہ کا بھی رہے گا۔ کم از کم امریکی پالیسی میں تب تک کسی بدلاؤ کا تصور نہیں کیا جاسکتا جب تک ڈیموکریٹس کے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہے۔
(مضمون نگار: سابق سفیر جیتندر کمار ترپاٹھی)