ETV Bharat / opinion

بائیڈن کی مغربی ایشیا کے لئے نئی حکمت عملی - Biden’s new West Asia strategy

بائیڈن انتظامیہ کا خصوصی مشیرمہر بترکو بنانا یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ بائیڈن اب آنکھ بند کرکے اسرائیل کی حمایت نہیں کریں گے۔ کیونکہ عالمی سطح پر امریکہ کی بہت زیادہ نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ اسرائیل میں انتخابات بھی ہونے والے ہیں ایسے میں امریکہ انتظامیہ یہی چاہے گا کہ اسرائیل کی باگ ڈور وہی سنبھالے جو امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا سکے۔

امریکی صدر جوبائیڈن
امریکی صدر جوبائیڈن (اے پی)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : May 14, 2024, 4:30 PM IST

حیدرآباد: بائیڈن انتظامیہ کے چند اقدامات مغربی ایشیا کے لیے امریکی حکمت عملی کو ظاہر کرتے ہیں۔ سب سے پہلے، بطور صدر بائیڈن کے خصوصی مشیر کی تقرری مہر بتر ہیں۔ مہر اس سے قبل اوباما انتظامیہ کے ساتھ تھے جہاں انہوں نے اسرائیل-فلسطین کے رشتوں پر نظر رکھی۔ ایک طالب علم کے طور پر وہ فلسطین میں اسٹوڈنٹس فار جسٹس کے صدر تھے، یہ ایک تنظیم تھی جو یہودی مخالف تھی، جو کیمپس میں اسرائیل کے زیر اہتمام ہونے والے پروگراموں کو روکنے کے لیے ذمہ دار تھی۔ یہ تنظیم، اس وقت امریکی کیمپس میں اسرائیل کی حمایت جو بھی مظاہرے ہوا کرتے تھے، زیادہ تر مظاہروں کی قیادت کر رہی ہے۔

بائیڈن کا امریکی یونیورسٹیوں میں صیہونیت دشمن مظاہروں کو توڑنے کے ساتھ ساتھ ایک سام دشمن کو وائٹ ہاؤس میں لانا، پولیس کی طاقت کو استعمال کرنا، ممکنہ طور پر اسرائیل کی حمایت کو کم کرنے کے اپنے ارادے کی نشاندہی کرتا ہے جس سے آنے والے انتخابات میں مسلمان امریکی ووٹرز کو راغب کیا جاسکے۔

دوسرا ان پٹ یہ اعلان ہے کہ امریکہ اسرائیل کو زمینی حملے کے لیے ضروری ہتھیاروں اور گولہ بارود کی سپلائی بند کر دے گا۔ سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ، 'اگر اسرائیل رفح میں گھُستا ہے تو میں وہ ہتھیار فراہم نہیں کرے گا جو اسرائیل نے مزید مانگے ہیں۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ 'میں نے بی بی (اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو) اور جنگی کابینہ کو بھی اس سلسلے میں آگاہ کر دیا ہے کہ اگر وہ آبادی والے علاقے میں حملے کرتا ہے تو امریکہ اس کی بالکل بھی مدم نہیں کرے گا۔

دریں اثناء واشنگٹن نے قطر اور لبنان کو ہتھیار فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، ساتھ ہی امریکہ نے ایران کے لیے پابندیوں میں چھوٹ کو برقرار رکھا ہے، مگر ایرانی پراکسی نے کئی سمتوں میں اسرائیل کو الجھا کر رکھا ہوا ہے۔

امریکہ عراق کو ایران سے بجلی درآمد کرنے کے لیے سہ ماہی پابندیوں میں چھوٹ دیتا ہے۔ اس بجلی کے لیے ادا کی گئی رقم، عمان میں ایک بینک اکاؤنٹ میں جمع کی جاتی ہے جسے ایران یورو میں تبدیل کر سکتا ہے۔

تیسرا، بائیڈن کی طرف سے گولہ بارود کی سپلائی روکنے کے چند دن بعد، وائٹ ہاؤس نے مختلف ممالک کو امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں کی فہرست پر نظرثانی کا حکم دیا کہ اسرائیل نے جنگ کے دوران بعض صورتوں میں بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی میں امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں کا استعمال کیا ہو گا۔ اس میں مزید کہا گیا کہ 'اسرائیل کے پاس ایسے آلات موجود ہیں جس سے اسرائیلی فوج کے ذریعہ کی گئی کاروائیوں سے اس کے خود اپنے شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کیا جا سکے۔ لیکن 'زمینی سطح پر ہونے والے نقصانات حاص کر شہری ہلاکتوں کے اعداد و شمار کافی سوالات اٹھاتے ہیں کہ آیا اسرائیل کے دفاعی فورسز انہیں مؤثر طریقے سے استعمال کر رہی ہیں یا اس کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔'

وائٹ ہاؤس کی یہ کارروائیاں چند پیغامات دیتی ہیں۔ سب سے پہلے،

امریکا اب اسرائیل کے لیے’بلین چیک‘ نہیں رہے گا۔ اب تک اسرائیل نے ہمیشہ یہی مان لیا تھا کہ اسے

امریکی تجاویز اور خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے بھی امریکی حمایت حاصل رہے گی، چاہے اس نے اپنے مخالفین کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کی ہو۔ امریکہ اس کی ہاں میں ہاں ملائے گا۔ مگر بائیڈن نے کھُل کر وضاحت کردی ہے کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔

دوم، بائیڈن امریکہ کے مسلم ووٹ بینک کو اپنی طرف خاص کر متوجہ کر رہے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے وہ اسرائیل کی حمایت کم کرنے پر آمادہ ہیں۔ بائیڈن امریکی یونیورسٹیوں میں جاری اسرائیل مخالف مظاہروں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ رفح کے حملے میں شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں مسلمان امریکی ووٹرز ٹرمپ کے حق میں بائیڈن سے کنارہ کشی اختیار کر سکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی، اگر وہ تمام ہتھیاروں کی سپلائی روک دیتا ہے، تو یہودی ووٹر ان کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ اس لیے بائیڈن نے ذکر کیا کہ وہ اینٹی میزائل ہتھیاروں کے ساتھ اسرائیل کی حمایت جاری رکھیں گے۔ انتخابات نے بائیڈن کو محتاط انداز میں قدم رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسے میں وہ نہ تو مسلم کے خلاف جانا چاہتے ہیں اور نہ ہی اسرائیل کے۔ اس لئے بہت حکمتِ عملی سے کام لے رہے ہیں۔

تیسرا، یہ امریکی انتظامیہ کے اندر نیتن یاہو کی پالیسیوں کو لیکر ایک مایوسی ظاہر ہوتی ہے جو انہوں نے غزہ میں اپنا رکھی ہے۔ تاہم، ظاہری طور پر واشنگٹن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کو درکنار کر کے تل ابیب کی حمایت کرتا ہے۔

امریکہ نے 'سرکاری طور پر' اس بات کا اعلان کیا ہے اگر اب رفح پر کوئی بھی بڑا فوجی حملہ کیا گیا تو یہ مذاکرات کی میز پر حماس کے ہاتھ مضبوط کرے گا۔ مذید یہ کہ امن کی تمام کوششوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے، جن پر اس وقت مصر، متحدہ عرب امارات اور قطر مذاکرات کر رہے ہیں۔ قاہرہ پہلے ہی بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے مقدمے میں شامل ہونے کے اپنے ارادے کا اعلان کر چکا ہے۔

اس کے علاوہ، خطے میں امریکی اتحادی، جو اس وقت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں، شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافے کی صورت میں مذید اندرونی دباؤ کا سامنا کر سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تناؤ امریکہ کے لیے سر درد بنا ہوا ہے، خاص طور پر یوکرین کے جاری تنازع اور چینی جارحیت میں اضافہ کے ساتھ اب امریکہ کسی تیسرے مورچے پر مجرم بن کر کھڑا ہونا نہیں چاہتا ہے۔

نیتن یاہو کی مخلوط حکومت بھی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ایک طرف، نیتن یاہو کو حماس کے ہاتھوں اغوا کیے گئے افراد کے رشتہ داروں کی طرف سے زور دیا جا رہا ہے کہ وہ امن معاہدہ کریں جس سے ان کی واپسی کو یقینی بنایا جا سکے، دوسری طرف، ان کی کابینہ کے سخت گیر رفح پر مکمل حملے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر نیتن یاہو ایک سمت میں جھکتے ہیں، تو دوسری طرف سے دباؤ بڑھ سکتا ہے۔

اس میں ان کے خلاف بدعنوانی کے عدالتی مقدمات بھی شامل ہیں۔ اس لیے نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ رفح کو صاف کیے بغیر حماس کو تباہ کرنے کا اسرائیل کا جنگی مقصد نامکمل رہے گا۔ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیتن یاہو نے امریکہ کی جانب سے اسلحے کی ترسیل روکنے پر تبصرہ کیا، 'اگر ہمیں تنہا کھڑا ہونا ہے تو ہم تنہا کھڑے ہوں گے۔ اگر ہمیں ضرورت پڑی تو ہم اپنے ناخنوں سے لڑیں گے۔‘‘ اسرائیل میں اچانک انتخابات نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

مزید، سات اکتوبر دوہزار تیئس حماس کے حملے سے پہلے تک کی ناکامیوں کی تحقیقات، جس کا ابھی تک نیتن یاہو نے حکم نہیں دیا، یقینی طور پر انہیں ذمہ دار ٹھہرائے گا، جس سے ان کا سیاسی کیریئر ختم ہو جائے گا۔ اس کا واحد آپشن حماس کی تباہی اور یرغمالیوں کی بازیابی کو یقینی بنانا ہے۔ اسرائیل کے فوجی ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے کہا کہ اسرائیل کے پاس رفح کے لیے کافی گولہ بارود موجود ہے۔ اور دیگر منصوبہ بند مستقبل کی کارروائیوں نے مزید کہا کہ امریکہ کے ساتھ اختلافات کو نجی طور پر حل کیا جا رہا ہے۔

بائیڈن کا مسئلہ اسرائیلی قانون سازوں کو نہیں بلکہ نیتن یاہو کو لگتا ہے۔ نیتن یاہو امریکی انتباہات پر توجہ دینے سے انکار کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی بقا کی ذاتی لڑائی کو امریکہ کی بات سننے سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ بائیڈن کی ایران کے ساتھ اختلافات کو حل کرنے کی متعدد کوششوں کو اسرائیل نے روکا ہے، جس نے اسے سعودی اسرائیل امن اقدام پر غور کرنے پر مجبور کیا، اس طرح اس کے ایران مخالف اتحاد میں اضافہ ہوا۔ امریکی حمایت کے ساتھ رفح حملے کے بعد ہلاکتوں میں اضافے کی صورت میں امریکی اثر و رسوخ اور عرب ریاستوں کے ساتھ اس کے تعلقات کو بھی ممکنہ دھچکا لگ سکتا ہے۔

اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بھی بشمول بین الاقوامی عدالت انصاف سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کو جنگ میں بے گناہ ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ یو این ایس سی میں، امریکہ اسرائیل مخالف تمام قراردادوں کو ویٹو کر دیتا ہے۔ تنظیم میں فلسطین کی رکنیت پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حالیہ ووٹنگ ایک دھچکا تھا۔

امریکہ اسرائیل اثر و رسوخ کے لیے۔ فلسطین پر ایک اور ویٹو واشنگٹن کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ امریکہ کے لیے مضبوط اسرائیل اس کی حکمت عملی کا ایک لازمی حصہ ہے۔

مغربی ایشیا کے لیے۔ یہ امریکہ کو مطلوبہ فوجی بیک اپ فراہم کرتے ہوئے امن کو یقینی بناتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ ایسے اسرائیل کی خواہش نہیں کرتا جو واشنگٹن اس کا اہم حمایتی اور مالی معاون ہونے کے باوجود اس کے مشورے پر عمل کرنے سے انکار کرے۔ حماس کی بقا بھی امریکہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسرائیل پر کسی نہ کسی شکل میں دباؤ برقرار رکھے۔ اس لیے واشنگٹن کبھی بھی اس کے خاتمے کی خواہش نہیں کرے گا۔

واشنگٹن نے ہمیشہ تل ابیب کی حمایت کی ہے، سرکار چاہے کسی کی بھی رہی ہو، جس کی ایک وجہ امریکہ کے اندر ایک طاقتور یہودی لابی ہے۔ جو ہمیشہ ایسا کرتی رہے گی، تاہم امریکہ ایسے اسرائیلی رہنما کو ترجیح دے گا جو اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہو۔ آخر کار ، بائیڈن کو اپنا توازن بھی رکھنا ضروری ہے۔ آئندہ انتخابات میں وائٹ ہاؤس پر دوبارہ قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی حمایت بھی اور ضرورت پڑنے پر نیتن یاہو قربانی کا بکرا بنیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

حیدرآباد: بائیڈن انتظامیہ کے چند اقدامات مغربی ایشیا کے لیے امریکی حکمت عملی کو ظاہر کرتے ہیں۔ سب سے پہلے، بطور صدر بائیڈن کے خصوصی مشیر کی تقرری مہر بتر ہیں۔ مہر اس سے قبل اوباما انتظامیہ کے ساتھ تھے جہاں انہوں نے اسرائیل-فلسطین کے رشتوں پر نظر رکھی۔ ایک طالب علم کے طور پر وہ فلسطین میں اسٹوڈنٹس فار جسٹس کے صدر تھے، یہ ایک تنظیم تھی جو یہودی مخالف تھی، جو کیمپس میں اسرائیل کے زیر اہتمام ہونے والے پروگراموں کو روکنے کے لیے ذمہ دار تھی۔ یہ تنظیم، اس وقت امریکی کیمپس میں اسرائیل کی حمایت جو بھی مظاہرے ہوا کرتے تھے، زیادہ تر مظاہروں کی قیادت کر رہی ہے۔

بائیڈن کا امریکی یونیورسٹیوں میں صیہونیت دشمن مظاہروں کو توڑنے کے ساتھ ساتھ ایک سام دشمن کو وائٹ ہاؤس میں لانا، پولیس کی طاقت کو استعمال کرنا، ممکنہ طور پر اسرائیل کی حمایت کو کم کرنے کے اپنے ارادے کی نشاندہی کرتا ہے جس سے آنے والے انتخابات میں مسلمان امریکی ووٹرز کو راغب کیا جاسکے۔

دوسرا ان پٹ یہ اعلان ہے کہ امریکہ اسرائیل کو زمینی حملے کے لیے ضروری ہتھیاروں اور گولہ بارود کی سپلائی بند کر دے گا۔ سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ، 'اگر اسرائیل رفح میں گھُستا ہے تو میں وہ ہتھیار فراہم نہیں کرے گا جو اسرائیل نے مزید مانگے ہیں۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ 'میں نے بی بی (اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو) اور جنگی کابینہ کو بھی اس سلسلے میں آگاہ کر دیا ہے کہ اگر وہ آبادی والے علاقے میں حملے کرتا ہے تو امریکہ اس کی بالکل بھی مدم نہیں کرے گا۔

دریں اثناء واشنگٹن نے قطر اور لبنان کو ہتھیار فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، ساتھ ہی امریکہ نے ایران کے لیے پابندیوں میں چھوٹ کو برقرار رکھا ہے، مگر ایرانی پراکسی نے کئی سمتوں میں اسرائیل کو الجھا کر رکھا ہوا ہے۔

امریکہ عراق کو ایران سے بجلی درآمد کرنے کے لیے سہ ماہی پابندیوں میں چھوٹ دیتا ہے۔ اس بجلی کے لیے ادا کی گئی رقم، عمان میں ایک بینک اکاؤنٹ میں جمع کی جاتی ہے جسے ایران یورو میں تبدیل کر سکتا ہے۔

تیسرا، بائیڈن کی طرف سے گولہ بارود کی سپلائی روکنے کے چند دن بعد، وائٹ ہاؤس نے مختلف ممالک کو امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں کی فہرست پر نظرثانی کا حکم دیا کہ اسرائیل نے جنگ کے دوران بعض صورتوں میں بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی میں امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں کا استعمال کیا ہو گا۔ اس میں مزید کہا گیا کہ 'اسرائیل کے پاس ایسے آلات موجود ہیں جس سے اسرائیلی فوج کے ذریعہ کی گئی کاروائیوں سے اس کے خود اپنے شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کیا جا سکے۔ لیکن 'زمینی سطح پر ہونے والے نقصانات حاص کر شہری ہلاکتوں کے اعداد و شمار کافی سوالات اٹھاتے ہیں کہ آیا اسرائیل کے دفاعی فورسز انہیں مؤثر طریقے سے استعمال کر رہی ہیں یا اس کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔'

وائٹ ہاؤس کی یہ کارروائیاں چند پیغامات دیتی ہیں۔ سب سے پہلے،

امریکا اب اسرائیل کے لیے’بلین چیک‘ نہیں رہے گا۔ اب تک اسرائیل نے ہمیشہ یہی مان لیا تھا کہ اسے

امریکی تجاویز اور خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے بھی امریکی حمایت حاصل رہے گی، چاہے اس نے اپنے مخالفین کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کی ہو۔ امریکہ اس کی ہاں میں ہاں ملائے گا۔ مگر بائیڈن نے کھُل کر وضاحت کردی ہے کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔

دوم، بائیڈن امریکہ کے مسلم ووٹ بینک کو اپنی طرف خاص کر متوجہ کر رہے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے وہ اسرائیل کی حمایت کم کرنے پر آمادہ ہیں۔ بائیڈن امریکی یونیورسٹیوں میں جاری اسرائیل مخالف مظاہروں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ رفح کے حملے میں شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں مسلمان امریکی ووٹرز ٹرمپ کے حق میں بائیڈن سے کنارہ کشی اختیار کر سکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی، اگر وہ تمام ہتھیاروں کی سپلائی روک دیتا ہے، تو یہودی ووٹر ان کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ اس لیے بائیڈن نے ذکر کیا کہ وہ اینٹی میزائل ہتھیاروں کے ساتھ اسرائیل کی حمایت جاری رکھیں گے۔ انتخابات نے بائیڈن کو محتاط انداز میں قدم رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسے میں وہ نہ تو مسلم کے خلاف جانا چاہتے ہیں اور نہ ہی اسرائیل کے۔ اس لئے بہت حکمتِ عملی سے کام لے رہے ہیں۔

تیسرا، یہ امریکی انتظامیہ کے اندر نیتن یاہو کی پالیسیوں کو لیکر ایک مایوسی ظاہر ہوتی ہے جو انہوں نے غزہ میں اپنا رکھی ہے۔ تاہم، ظاہری طور پر واشنگٹن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کو درکنار کر کے تل ابیب کی حمایت کرتا ہے۔

امریکہ نے 'سرکاری طور پر' اس بات کا اعلان کیا ہے اگر اب رفح پر کوئی بھی بڑا فوجی حملہ کیا گیا تو یہ مذاکرات کی میز پر حماس کے ہاتھ مضبوط کرے گا۔ مذید یہ کہ امن کی تمام کوششوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے، جن پر اس وقت مصر، متحدہ عرب امارات اور قطر مذاکرات کر رہے ہیں۔ قاہرہ پہلے ہی بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے مقدمے میں شامل ہونے کے اپنے ارادے کا اعلان کر چکا ہے۔

اس کے علاوہ، خطے میں امریکی اتحادی، جو اس وقت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں، شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافے کی صورت میں مذید اندرونی دباؤ کا سامنا کر سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تناؤ امریکہ کے لیے سر درد بنا ہوا ہے، خاص طور پر یوکرین کے جاری تنازع اور چینی جارحیت میں اضافہ کے ساتھ اب امریکہ کسی تیسرے مورچے پر مجرم بن کر کھڑا ہونا نہیں چاہتا ہے۔

نیتن یاہو کی مخلوط حکومت بھی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ایک طرف، نیتن یاہو کو حماس کے ہاتھوں اغوا کیے گئے افراد کے رشتہ داروں کی طرف سے زور دیا جا رہا ہے کہ وہ امن معاہدہ کریں جس سے ان کی واپسی کو یقینی بنایا جا سکے، دوسری طرف، ان کی کابینہ کے سخت گیر رفح پر مکمل حملے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر نیتن یاہو ایک سمت میں جھکتے ہیں، تو دوسری طرف سے دباؤ بڑھ سکتا ہے۔

اس میں ان کے خلاف بدعنوانی کے عدالتی مقدمات بھی شامل ہیں۔ اس لیے نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ رفح کو صاف کیے بغیر حماس کو تباہ کرنے کا اسرائیل کا جنگی مقصد نامکمل رہے گا۔ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیتن یاہو نے امریکہ کی جانب سے اسلحے کی ترسیل روکنے پر تبصرہ کیا، 'اگر ہمیں تنہا کھڑا ہونا ہے تو ہم تنہا کھڑے ہوں گے۔ اگر ہمیں ضرورت پڑی تو ہم اپنے ناخنوں سے لڑیں گے۔‘‘ اسرائیل میں اچانک انتخابات نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

مزید، سات اکتوبر دوہزار تیئس حماس کے حملے سے پہلے تک کی ناکامیوں کی تحقیقات، جس کا ابھی تک نیتن یاہو نے حکم نہیں دیا، یقینی طور پر انہیں ذمہ دار ٹھہرائے گا، جس سے ان کا سیاسی کیریئر ختم ہو جائے گا۔ اس کا واحد آپشن حماس کی تباہی اور یرغمالیوں کی بازیابی کو یقینی بنانا ہے۔ اسرائیل کے فوجی ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے کہا کہ اسرائیل کے پاس رفح کے لیے کافی گولہ بارود موجود ہے۔ اور دیگر منصوبہ بند مستقبل کی کارروائیوں نے مزید کہا کہ امریکہ کے ساتھ اختلافات کو نجی طور پر حل کیا جا رہا ہے۔

بائیڈن کا مسئلہ اسرائیلی قانون سازوں کو نہیں بلکہ نیتن یاہو کو لگتا ہے۔ نیتن یاہو امریکی انتباہات پر توجہ دینے سے انکار کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی بقا کی ذاتی لڑائی کو امریکہ کی بات سننے سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ بائیڈن کی ایران کے ساتھ اختلافات کو حل کرنے کی متعدد کوششوں کو اسرائیل نے روکا ہے، جس نے اسے سعودی اسرائیل امن اقدام پر غور کرنے پر مجبور کیا، اس طرح اس کے ایران مخالف اتحاد میں اضافہ ہوا۔ امریکی حمایت کے ساتھ رفح حملے کے بعد ہلاکتوں میں اضافے کی صورت میں امریکی اثر و رسوخ اور عرب ریاستوں کے ساتھ اس کے تعلقات کو بھی ممکنہ دھچکا لگ سکتا ہے۔

اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بھی بشمول بین الاقوامی عدالت انصاف سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کو جنگ میں بے گناہ ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ یو این ایس سی میں، امریکہ اسرائیل مخالف تمام قراردادوں کو ویٹو کر دیتا ہے۔ تنظیم میں فلسطین کی رکنیت پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حالیہ ووٹنگ ایک دھچکا تھا۔

امریکہ اسرائیل اثر و رسوخ کے لیے۔ فلسطین پر ایک اور ویٹو واشنگٹن کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ امریکہ کے لیے مضبوط اسرائیل اس کی حکمت عملی کا ایک لازمی حصہ ہے۔

مغربی ایشیا کے لیے۔ یہ امریکہ کو مطلوبہ فوجی بیک اپ فراہم کرتے ہوئے امن کو یقینی بناتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ ایسے اسرائیل کی خواہش نہیں کرتا جو واشنگٹن اس کا اہم حمایتی اور مالی معاون ہونے کے باوجود اس کے مشورے پر عمل کرنے سے انکار کرے۔ حماس کی بقا بھی امریکہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسرائیل پر کسی نہ کسی شکل میں دباؤ برقرار رکھے۔ اس لیے واشنگٹن کبھی بھی اس کے خاتمے کی خواہش نہیں کرے گا۔

واشنگٹن نے ہمیشہ تل ابیب کی حمایت کی ہے، سرکار چاہے کسی کی بھی رہی ہو، جس کی ایک وجہ امریکہ کے اندر ایک طاقتور یہودی لابی ہے۔ جو ہمیشہ ایسا کرتی رہے گی، تاہم امریکہ ایسے اسرائیلی رہنما کو ترجیح دے گا جو اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہو۔ آخر کار ، بائیڈن کو اپنا توازن بھی رکھنا ضروری ہے۔ آئندہ انتخابات میں وائٹ ہاؤس پر دوبارہ قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی حمایت بھی اور ضرورت پڑنے پر نیتن یاہو قربانی کا بکرا بنیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.