ETV Bharat / jammu-and-kashmir

کشمیر کا تاریخی ورثہ - مغل روڈ اور علی آباد سرائے - ALIABAD SARAI

تاریخی مغل روڈ پر تعمیر علی آباد سرائے کشمیر میں مغل طرز تعمیر اور ثقافتی ورثے کی عکاس ہے۔ شاہد ٹاک کی رپورٹ

ا
علی آباد سرائے کا دلکش منظر (ای ٹی وی بھارت)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 13, 2024, 4:07 PM IST

شوپیاں (جموں کشمیر) : مغل روڈ، جموں و کشمیر کی ایک تاریخی شاہراہ ہے جو صوبہ جموں کے راجوری اور پونچھ اضلاع کو جنوبی کشمیر سے جوڑتی ہے۔ یہ شاہراہ مغل دور میں تعمیر کی گئی اور مغل بادشاہوں، خصوصاً شہنشاہ اکبر اور جہانگیر کے کشمیر سفر کے دوران استعمال ہوتی رہی۔ اس راستے نے 16ویں سے 18ویں صدی کے دوران مغل سلطنت کے شمالی علاقوں کو کشمیر سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

کشمیر کا تاریخی ورثہ - مغل روڈ اور علی آباد سرائے (Video Source: ETV Bharat)

شہنشاہ اکبر نے اپنے دور میں کشمیر کو مغلیہ سلطنت کا حصہ بنایا اور اسی راستے کو باقاعدہ سفر کا ذریعہ بنایا۔ بعد میں، جہانگیر نے اس راستے کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا اور کشمیر کے حسن سے متاثر ہو کر بار بار یہاں کا سفر کیا۔ جہانگیر اپنی ملکہ نور جہاں کے ہمراہ اسی راستے پر سفر کرتے ہوئے شوپیان کے راستے کشمیر پہنچتے تھے۔

شوپیان ضلع سے گزرنے والے اسی مغل روڑ پر علی آباد سرائے واقع ہے، جو اس راستے پر ایک قدیم قیام گاہ ہے۔ علی آباد سرائے اس وقت مغل بادشاہوں، فوجیوں، تاجروں اور دیگر مسافروں کے لیے آرام و قیام کی جگہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ یہ تاریخی سرائے نہر پنجال کے بائیں کنارے، رتن پیر پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سرائے کی تعمیر مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں ہی شروع ہوئی اور بعد میں جہانگیر کے گورنر علی مردان خان نے اس کی بحالی کروائی، جس کے بعد اس کا نام علی آباد سرائے رکھا گیا۔

یہ سرائے ایک مستطیل نما عمارت ہے جس میں 26 کمرے ایک کھلے صحن کے اردگرد بنے ہوئے ہیں۔ داخلے کے لیے ایک بڑا دروازہ ہے جس کی دونوں جانب گارڈ رومز موجود ہیں، جبکہ دروازے پر گرینائٹ اور بلیک اسٹون کے ستون ہیں۔ سرائے کے اندر شہنشاہ اور ملکہ کے لیے تین کمروں کا خصوصی سیٹ ہے۔ اس کی تعمیر میں سرخی اور لاجوری اینٹوں کا استعمال ہوا ہے، جو مغلیہ طرزِ تعمیر کی عکاسی کرتا ہے۔

مغل بادشاہوں کے دور میں مختلف مقامات پر ایسی سرائیں بنائی گئیں تھیں تاکہ سفر کرنے والے تاجروں اور فوجیوں کو آرام اور تحفظ مل سکے۔ جہانگیر نے اپنے کشمیر کے سفر کے دوران ان سراؤں میں قیام کیا۔ ان سراؤں کا مقصد مسافروں کو جنگلی جانوروں اور دیگر خطرات سے بچانا اور ایک آرام دہ ماحول فراہم کرنا تھا۔ ان میں مسافروں کے لیے کھانا پکانے، آرام کرنے اور جانوروں کو باندھنے کی جگہیں بھی موجود تھیں۔

آج، علی آباد سرائے کو ایک تاریخی مقام کے طور پر جانا جاتا ہے، اور سیاح یہاں مغلیہ طرزِ تعمیر اور تاریخ کا مشاہدہ کرنے آتے ہیں۔ یہ سرائے مغل دور کے عظیم انفراسٹرکچر اور ان کی انتظامی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔ حکومت نے اس ورثے کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ آئندہ نسلیں بھی اس عظیم ماضی سے واقف رہ سکیں۔ یہ مقام نہ صرف مغل تاریخ بلکہ اس خطے کی ثقافت اور تعمیراتی ورثے کا ایک نمایاں حصہ ہے، اور آج بھی مغلوں کے دور کی یاد دلاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیری ثقافت ابھی بھی زندہ ہے تاہم اس کو مقبول بنانے کی ضرورت ہے: پرنسپل سکریٹری محکمہ ثقافت

شوپیاں (جموں کشمیر) : مغل روڈ، جموں و کشمیر کی ایک تاریخی شاہراہ ہے جو صوبہ جموں کے راجوری اور پونچھ اضلاع کو جنوبی کشمیر سے جوڑتی ہے۔ یہ شاہراہ مغل دور میں تعمیر کی گئی اور مغل بادشاہوں، خصوصاً شہنشاہ اکبر اور جہانگیر کے کشمیر سفر کے دوران استعمال ہوتی رہی۔ اس راستے نے 16ویں سے 18ویں صدی کے دوران مغل سلطنت کے شمالی علاقوں کو کشمیر سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

کشمیر کا تاریخی ورثہ - مغل روڈ اور علی آباد سرائے (Video Source: ETV Bharat)

شہنشاہ اکبر نے اپنے دور میں کشمیر کو مغلیہ سلطنت کا حصہ بنایا اور اسی راستے کو باقاعدہ سفر کا ذریعہ بنایا۔ بعد میں، جہانگیر نے اس راستے کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا اور کشمیر کے حسن سے متاثر ہو کر بار بار یہاں کا سفر کیا۔ جہانگیر اپنی ملکہ نور جہاں کے ہمراہ اسی راستے پر سفر کرتے ہوئے شوپیان کے راستے کشمیر پہنچتے تھے۔

شوپیان ضلع سے گزرنے والے اسی مغل روڑ پر علی آباد سرائے واقع ہے، جو اس راستے پر ایک قدیم قیام گاہ ہے۔ علی آباد سرائے اس وقت مغل بادشاہوں، فوجیوں، تاجروں اور دیگر مسافروں کے لیے آرام و قیام کی جگہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ یہ تاریخی سرائے نہر پنجال کے بائیں کنارے، رتن پیر پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سرائے کی تعمیر مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں ہی شروع ہوئی اور بعد میں جہانگیر کے گورنر علی مردان خان نے اس کی بحالی کروائی، جس کے بعد اس کا نام علی آباد سرائے رکھا گیا۔

یہ سرائے ایک مستطیل نما عمارت ہے جس میں 26 کمرے ایک کھلے صحن کے اردگرد بنے ہوئے ہیں۔ داخلے کے لیے ایک بڑا دروازہ ہے جس کی دونوں جانب گارڈ رومز موجود ہیں، جبکہ دروازے پر گرینائٹ اور بلیک اسٹون کے ستون ہیں۔ سرائے کے اندر شہنشاہ اور ملکہ کے لیے تین کمروں کا خصوصی سیٹ ہے۔ اس کی تعمیر میں سرخی اور لاجوری اینٹوں کا استعمال ہوا ہے، جو مغلیہ طرزِ تعمیر کی عکاسی کرتا ہے۔

مغل بادشاہوں کے دور میں مختلف مقامات پر ایسی سرائیں بنائی گئیں تھیں تاکہ سفر کرنے والے تاجروں اور فوجیوں کو آرام اور تحفظ مل سکے۔ جہانگیر نے اپنے کشمیر کے سفر کے دوران ان سراؤں میں قیام کیا۔ ان سراؤں کا مقصد مسافروں کو جنگلی جانوروں اور دیگر خطرات سے بچانا اور ایک آرام دہ ماحول فراہم کرنا تھا۔ ان میں مسافروں کے لیے کھانا پکانے، آرام کرنے اور جانوروں کو باندھنے کی جگہیں بھی موجود تھیں۔

آج، علی آباد سرائے کو ایک تاریخی مقام کے طور پر جانا جاتا ہے، اور سیاح یہاں مغلیہ طرزِ تعمیر اور تاریخ کا مشاہدہ کرنے آتے ہیں۔ یہ سرائے مغل دور کے عظیم انفراسٹرکچر اور ان کی انتظامی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔ حکومت نے اس ورثے کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ آئندہ نسلیں بھی اس عظیم ماضی سے واقف رہ سکیں۔ یہ مقام نہ صرف مغل تاریخ بلکہ اس خطے کی ثقافت اور تعمیراتی ورثے کا ایک نمایاں حصہ ہے، اور آج بھی مغلوں کے دور کی یاد دلاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیری ثقافت ابھی بھی زندہ ہے تاہم اس کو مقبول بنانے کی ضرورت ہے: پرنسپل سکریٹری محکمہ ثقافت

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.