نئی دہلی: جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خاں نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’مسلم طلاق یافتہ خواتین کو عدت کے بعد نان و نفقے کی ادائیگی کے تعلق سے سپریم کورٹ نے جو حالیہ فیصلہ دیا ہے، اس کا ابتدائی مطالعہ کرنے سے چند اہم نکات اجاگر ہوتے ہیں:
1 : 1986 کا ایکٹ ایک مکمل قانون تھا جسے طلاق یافتہ مسلم خواتین کے معاملات کے تصفیے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے سیکشن 3 میں طلاق شدہ مسلم عورت کو مہر کی ادائیگی، املاک کی واپسی اور عدت کے دوران نان و نفقے کی منصفانہ و معقول رقم کی ادائیگی کا واضح ذکر موجود ہے۔ اس قانون کو مرد کی دیگر ذمہ داریوں کو نظر انداز کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ مرد پر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ساتھ اگر بوڑھے ماں باپ اور بھائی بہن ضرورت مند ہوں تو ان کی مالی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ بیٹی یا بہن کی شادی سے قبل بھی کفالت اس کے باپ یا بھائی کے ذمے ہے اور اگر وہ بیوہ یا مطلقہ ہوکر گھر لوٹ آئے تو اس صورت میں بھی اس کی کفالت کا بوجھ ان کے ذمے ہے۔ یہ اسلام کا ایک اصولی اور متوازن نظام ہے جو شادی کے اصل مقاصد کے تحفظ سے متعلق اسلام کے وسیع تر اخلاقی تصور سے ہم آہنگ ہے اور ایسی صورت حال سے بچنے کا ذریعہ ہے جس سے شادی اور طلاق بوجھ بن جاتے ہیں اور جذباتی خلفشار اور قانونی تنازعات کا سبب بننے لگتے ہیں۔
2: متعدد سالوں کے مشاہدات سے معلوم ہوتا ہے کہ 1986کے قانون کے سیکشن 3 میں نان و نفقے کی جوتفصیل دی گئی ہے،اس سے،’سی آر پی سی‘ کی دفعہ 125 کے مقابلے میں زیادہ معقول نان و نفقے کی رقم مطلقہ کو فراہم ہوتی ہے، کیونکہ 1986 کا ایکٹ مسلم پرسنل لاء کے تحت مسلمان خاتون کے مخصوص حالات کا وسیع دائرے میں احاطہ کرلیتا ہے۔
3: یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس واضح قانونی گنجائش کے ساتھ ساتھ ایک الگ متوازی نظام پر عمل درآمد کیسے ممکن ہوسکے گا۔ معاملہ عدالت کے اس ریمارک کے بعد مزید پیچیدہ ہوگیا ہے کہ دفعہ 127(3) ’سی آر پی سی‘ کی دفعات کے مطابق ، ججوں کو ’ سی آر پی سی‘ کی دفعہ 125 کی رُو سے کوئی بھی حکم دینے سے پہلے ایکٹ 1986 کے سیکشن 3 کے تحت دی گئی نان و نفقے کی تشریح پر دھیان دینا چاہئے۔
4: عدالت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس الجھن کو دور کرے اور قانونی موقف واضح کرے کہ طلاق شدہ مسلم خواتین کی کفالت مسلم پرسنل لاء کے مطابق ہی کی جائے گی، جیسا کہ 1986 کے ایکٹ میں درج ہے۔
5: ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر ’شریعہ اپلی کیشن ایکٹ 1937‘ کو کلی طور پر کیوں نظر انداز کردیا گیا ہے جبکہ یہ قانون کے اس ڈھانچے کا لازمی حصہ ہے جو آج مسلم پرسنل لاء کے ذریعہ مسلمانوں کے عائلی مسائل حل کرتا ہے۔ 1937 کا یہ ایکٹ مسلمانوں کو شادی، طلاق، وراثت وغیرہ جیسے مسائل میں پرسنل لاء کے مطابق عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ یہ ایکٹ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 25 کے عین مطابق ہے جس میں مذہب کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے اور یہ مسلمانوں سمیت ملک کے تمام شہریوں کا بنیادی حق ہے۔
6: مسلم پرسنل لاء اور اسلامی نقطہ نظر سے، شادی دو افراد کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ طلاق سے یہ معاہدہ ختم ہوجاتا ہے۔ جب معاہدہ ختم ہوگیا اور کسی قسم کا معاہداتی تعلق باقی ہی نہیں رہا تو شوہر پر مالی ذمہ داری آخر کیوں عائد ہوگی؟ کیا معاہدے کے یا پارٹنرشپ کے کسی بھی قانون میں معاہدے کے ختم ہوجانے کے بعد معاہدے کے کسی فریق پر مستقل مالی ذمہ داری کا کوئی تصور پایا جاتا ہے؟ اس فیصلے سے نکاح کے ایک معاہدے کی حیثیت ہی متاثر ہورہی ہے۔
7: جہاں تک مطلقہ مسلم خاتون کے حقوق کا تعلق ہے تو مسلم پرسنل لاء میں اور1986 کے قانون میں اس بات کو یقینی بنانے کا انتظام موجود ہے کہ وہ بے یارو مددگار نہ رہے، اس لئے شریعت نے اسے نہ صرف وراثت میں حصہ دار بنایا ہے بلکہ اس کے رشتہ داروں پر بھی لازم قرار دیا ہے کہ وہ اس عورت کی کفالت کا انتظام کریں ۔ اگر اس کے رشتہ دار اسے سہارا دینے سے قاصر ہیں یا اس کے خاندان کے افراد موجود نہیں ہیں تو اس کی کفالت پورے سماج کی ذمہ داری ہوگی اور اجتماعی نظامِ زکوۃ یا وقف کے ذریعے کی جائےگی۔ کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قانون کے مطابق عورت کی کفالت کو یقینی بنانے کے احکام جاری کرے۔
8: سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ خواتین کے حق میں نہیں ہے۔ یہ مطلقہ خواتین کو غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر سکتا ہے۔ اس صورت میں یہ اندیشہ موجود ہے کہ شوہر ازدواجی زندگی سے بے اطمینانی کے باوجود مستقل نان و نفقے کے بوجھ کے خوف سے طلاق نہیں دے گا اور عورت کو نکاح میں رکھ کر ظلم کا شکار بناتا رہے گا یا طلاق کے بغیر اسے یوں ہی چھوڑ دے گا۔ اس کی بہت سی نظیریں موجود ہیں اور مسلم پرسنل لاء اس مسئلے کو حل کرتا ہے اور ناکام شادی کی صورت میں عورت کو آزادی کا باعزت راستہ فراہم کرتا ہے۔
9: ہندوستان کے آئین نے تمام مذہبی اقلیتوں کو اپنے مذہب اور اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے کی آزادی دی ہے۔ اب اگر قانون میں یا اس کی تعبیر میں کوئی ایسی تبدیلی کی جاتی ہے جو مسلم پرسنل لا فریم ورک کے بنیادی ڈھانچے کو بدل دے، تو یہ مسلمانوں کے نزدیک ناقابل قبول ہوگا۔ ایسا کرنا نہ صرف قانوناً غلط ہوگا بلکہ آئین میں سب کے لیے فراہم کردہ حقوق کی بھی خلاف ورزی ہوگی ۔ یہ عمل اخلاقیات اور سماجی انصاف کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
10: مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کے اس دروازے کو مستقل طور پر بند کرنے کے لئے حکومت (وزارت قانون)، سیاسی جماعتوں اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے درمیان مشاورت اور غورو فکر کرکے ٹھوس حل نکالا جانا چاہئے۔