نئی دہلی: نغمہ نگار اور معروف شاعر جاوید اختر ان عرضی گزاروں میں شامل ہیں جن کی درخواست پر سپریم کورٹ نے گجرات میں 2002 سے 2006 کے درمیان مبینہ فرضی انکاؤنٹر کے 17 مقدمات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ جاوید اختر نے اپنے وکیل کے ذریعے جسٹس سنجے کشن کول کی بنچ کے سامنے پیش ہو کر جسٹس ایچ ایس بیدی کمیٹی کی رپورٹ کو قبول کیا تھا۔ رپورٹ میں اکثریت کا کہنا تھا کہ انکاؤنٹر حقیقی تھے لیکن ان میں سے تین میں پولیس اہلکاروں پر قتل کے الزام میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ آج اسی معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت ہے۔ جاوید اختر نے اپنی عرضداشت میں گجرات انکاؤنٹر کے معاملات میں کسی آزاد ایجنسی یا سی بی آئی سے جانچ کرانے کی اپیل کی ہے۔
- ایس ٹی ایف کی جانچ:
جسٹس ایچ ایس بیدی کی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت اسپیشل ٹاسک فورس (ایس ٹی ایف) کی تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ 17 میں سے تین انکاؤنٹر پہلی نظر میں فرضی تھے۔
2007 میں صحافی آنجہانی بی جی ورگیز اور جاوید اختر نے کیس کے حوالے سے الگ الگ درخواستیں دائر کی تھیں۔ 2012 میں سپریم کورٹ نے جسٹس بیدی کو اس مانیٹرنگ کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا جو گجرات میں مبینہ فرضی انکاؤنٹر کے معاملات کی جانچ کرنے والی ایس ٹی ایف پر نظر رکھتی ہے۔ بی جی ورگیز کا انتقال 2014 میں ہوا۔
سابق جسٹس بیدی نے اپنی حتمی رپورٹ میں ایس ٹی ایف کی طرف سے تفتیش کیے گئے 17 انکاؤنٹروں میں سے زیادہ تر پر انگلی نہیں اٹھائی جبکہ تین معاملات میں ملوث پولیس افسران کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش کی۔
- سپریم کورٹ نے ابھی تک جسٹس بیدی کمیٹی کی رپورٹ کو منظوری نہیں دی:
جب بنچ نے 18 جنوری کو درخواستوں پر غور کیا تو گجرات حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ رجت نائر نے کہا تھا کہ ریاستی حکومت کو ان دستاویزات کو سمجھنا ہوگا جن کی بنیاد پر جسٹس بیدی کمیٹی نے نتیجہ اخذ کیا ہے۔ رجت نائر نے جاوید اختر پر مبینہ فرضی انکاؤنٹر کی آڑ میں ایک خاص ریاست کو بدنام کرنے کی کوشش کا الزام لگایا تھا۔
جاوید اختر کے وکیل نے کمیٹی کی حتمی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اس دوران سینئر وکلاء مکل روہتگی اور منیندر سنگھ کچھ پولیس افسران کی جانب سے پیش ہوئے جن کے خلاف کمیٹی نے مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ رپورٹ کو قبول نہ کیا جائے۔ انہوں نے دلیل دی کہ تمام دستاویزات حاصل کرنے کے بعد وہ اس میں سنگین غلطیوں کی نشاندہی کریں گے۔
اس کے بعد عدالت نے ہدایت دی کہ جن دستاویزات پر جسٹس بیدی کمیٹی نے اعتماد ظاہر کیا اور حتمی رپورٹ تیار کی، وہ ریاستی حکومت کو فراہم کئے جائیں۔ آپ کو بتا دیں کہ سپریم کورٹ نے ابھی تک جسٹس بیدی کمیٹی کی رپورٹ کو منظوری نہیں دی ہے۔