بھاگلپور (بہار): بارش کا موسم ہے ایسے میں چاروں طرف پانی ہی پانی نظر آرہا ہے۔ بات چاہے سڑکوں کی ہو یا پھر کھیتوں کی، ندیوں کی ہو یا تالابوں کی، بارش کے پانی نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ باقی کثر طوفان نے پوری کردی ہے۔ طوفان کے پانی نے لوگوں کا گھر سے نکلنا مشکل کر دیا ہے۔
بھاگلپور یونیورسٹی کیمپس میں چل رہی ہیں کشتیاںبھاگلپور یونیورسٹی کیمپس میں چل رہی ہیں کشتیاں (ETV Bharat) اسی سلسلے میں بھاگلپور کی اگر بات کی جائے تو یہاں پر بھی طوفان کے پانی نے لوگوں کے لئے پریشانیاں پیدا کردی ہیں۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کشتی پر سوار ان لوگوں کا کسی ندی کو پار کرنے کا ارادہ قطعی نہیں ہے بلکہ یہ نظارہ تو ریاست بہار کے بھاگلپور شہر میں واقع تلکھا مانجھی یونیورسٹی کے کیمپس ہے۔ جہاں سیلاب کا پانی داخل ہوگیا ہے اور طلباء اور یونیورسٹی عملے کو اپنے ضروری کام انجام دینے کے لیے کشتی کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ یونیورسٹی کے کیمپس میں سیلاب کا پانی گھس گیا ہے اور ایک ہفتہ سے ہنوز موجود ہے۔
کوسی ندی میں نیپال سے پانی چھوڑے جانے کی وجہ سے گنگا افان پر ہے اور دار الحکومت پٹنہ سمیت شمالی بہار سیلاب کی زد میں ہے۔ اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب یونیورسٹی کیمپس میں سیلاب کا پانی داخل ہوا ہے بلکہ اکثرو بیشتر ہی یونیورسٹی کے طلباء و عملے کو اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس بہانے ملاحوں کی کمائی بھی ہوجاتی ہے۔
جانکار بتاتے ہیں کہ یہ سیلاب قدرتی سیلاب سے زیادہ انسانوں کے ذریعہ پیدا کردہ حالات کی وجہ سے آ رہے ہیں۔ کیونکہ بنگال میں فرکا پر ڈیم بنا دیا گیا جس کی وجہ سے نیپال کے ذریعہ کوسی ندی میں پانی چھوڑے جانے کے بعد گنگا میں طغیانی آجاتی ہے اور پھر پانی دیہی اور شہری علاقوں میں داخل ہو جاتا ہے، لہذا سیلاب کی صورتحال سے نپٹنے کے لیے حکومت کو اعلی سطحی کوششیں کرنی ہوں گی۔
یہ بھی پڑھیں:
سرکاری اعداد و شمارکے مطابق حالیہ دنوں میں سیلاب سے بھاگلپور کے تقریبا 55 پنچائت سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو اونچے مقامات پر پناہ لینا پڑی ہے۔