ممبئی: ممبئی میں موجود مسلم بستیاں اور محلے حکومتی عدم توجہی اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔۔چونکہ بستیاں مسلمانوں کی ہیں اس لئے ترقیاتی کاموں سے دور ہونا عام بات ہے۔ اکثر حکومتی اور بلدیاتی حکام کے خلاف علاقائی سطح پر مظاہرے کیے جاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی قائد بھلے ہی ووٹوں کہ کثیر ذخیرہ اپنی جھولی میں جمع کر لیں لیکن وہ حکومتی حكام کے سامنے اپنا وجود برقرار رکھنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ اس لئے شہر کے مسلمان ہمیشہ ووٹ بینک کے طور پر استعمال ہوتے آرہے ہیں۔
ممبئی کے مسلم علاقے آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم (Etv bharat) اہم بات یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے پاس قیادت کا کوئی اہم اور ٹھوس ذریعہ بھی نہیں ہے۔ اس لئے مسلمان ہر انتخاب کے دوران یہ جانتے ہوئے بھی استعمال ہو جاتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس بار اُن کے حالات یہ اُن کے علاقوں کے بارے میں کوئی بہتر سوچ سکے۔ اور انتخابات کے نتائج آنے کی بعد حالات پہلے سے بھی بدتر ہوجاتے ہیں۔ ممبئی کے کئی بڑے مسلم اکثریتی علاقوں میں سہولیات کا فقدان ہے۔ ان مسلم اکثریتی علاقوں سے کئی بڑے رہنما منتخب ہوتے ہیں۔ مگر مسائل کا حل کرنے کے بجائے الزام تراشی میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کوشش نہیں کرتے۔ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی ان کی مسلسل جدو جہد رہتی ہے لیکن ایوان میں اُن کی اکثریت نہ ہونے کے سبب ان کی کوشش کبھی رنگ نہیں لا پاتی۔ اس لئے وہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔ بھلے ہی ان کی پارٹی اقتدار میں ہو کیوں نہ ہوں۔
انتخابات سے قبل مسلمانوں کے ووٹ کے لیے یا اُن کے قائد کے انتخاب کے لیے غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمی شروع ہوجاتی ہے لیکن انتخابات کہ بعد یہ معاملے روزمرہ کی طرح ہوجاتے ہیں۔۔حالانکہ بیداری کے لیے ان سرگرمیوں کے لیے محض انتخابات سے ایک ماہ قبل کافی نہیں ہو سکتے۔ اس کے لیے پورے پانچ برس محنت ضروری ہے۔ تب کہیں جا کر ملت اور معاشرے کی فلاح و بہبود کی جاسکتی ہے۔
ممبئی کی غیر مراٹھی سیاست میں شمالی ہند کے مسلمانوں کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ اس رسوخ کو توڑنے کی کوشش مراٹھی اور دیگر ریاست سے آکر مقیم لوگوں نے کئی بار کی۔ ممبئی میں شمالی ہند مسلم لیڈر شپ کے سامنے غیر مسلم شمالی ہند لیڈرشپ بھی کئی مرتبہ گٹھنے ٹیکنے کو مجبور ہوئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دور حاضر میں اہم سیاسی پارٹی کانگریس، این سی پی شمالی ہند کے مسلم لیڈر شپ کو ہی حکومت اور تنظیم میں نہ صرف اہم جگہ دیتی ہیں بلکہ انتخاب لڑنے کا بھرپور موقع بھی عنایت کرتی ہیں۔ اس کے باوجود ممبئی میں رہائش پذیر شمالی ہند کے مسلمانوں کی حالت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
ممبئی میں پانچ مسلم اسمبلی حلقوں سے پانچ مسلم اراکین اسمبلی ہیں۔ ممبادیوی، ٹرامبے، باندرہ ،گونڈی، ملاڈ ان علاقوں میں مسلمانوں کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ یا وہ عوام کی بنیادی سہولتوں کو فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ایسا نہیں ہے کہ پوری ممبئی میں ترقیاتی کاموں کے لیے حکومتی فنڈ مہیا نہیں کیا جاتا۔ شہر ممبئی اور مضافات میں ایسے کئی علاقے ہیں جہاں حکومتی فنڈ کے استعمال کے بعد اُن علاقوں کی ایک الگ شناخت قائم ہوئی۔ اہم سوال یہ ہے کہ وارڈ، اسمبلی یا پارلیمانی حلقوں میں ترقیاتی فنڈ کی رسائی اگر ہر جگہ ہے تو مسلم بستیوں میں ہی آخر سرکاری فنڈ، سرکاری اسکیمیں دم توڑتے کیوں نظر آتی ہے؟۔