غزہ: امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے حماس سے متعلق ایک بیان نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ بلنکن نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ، حماس نے تقریباً اتنے ہی جنگجو بھرتی کیے ہیں جتنے جنگ میں مارے جا چکے ہیں۔
بلنکن کا یہ بیان، اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے اس عہد کی ذلت آمیز شکست ہے جس میں انھوں نے غزہ سے حماس کے خاتمہ اور مکمل فتح کا دعویٰ کیا تھا۔
حالانکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حماس نے اس جنگ میں اپنے کئی اعلیٰ لیڈر اور ہونہار جنگجو کھو دیا لیکن اس بات کا بھی اعتراف کیا جاتا ہے کہ، حماس کمزور ہونے کے باوجود ابھی بھی زندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ، غزہ میں زمینی کارروائی میں کل 405 اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں اور سات اکتوبر سے جاری جنگ میں 800 سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
زمینی سطح پر حماس کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ وہ آج بھی اس پوزیشن میں ہے کہ اسرائیل کو اپنی شرائط پر جھکانے کے قابل ہے۔
تازہ جنگ بندی معاہدہ حماس کی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے جس میں اس نے یرغمالیوں کے بدلے اپنی تقریباً شرائط کو منوا لیا ہے۔ 33 یرغمالیوں کے بدلے 2000 فلسطینیوں کی رہائی کی شرط کو منوانا حماس کے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہے۔
بھلے ہی فلسطینیوں نے اس جنگ کی تباہ کن قیمت چکائی ہو، لیکن حماس دنیا کی توجہ فلسطینی کاز کی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رہی۔ حماس نے کہا تھا کہ سات اکتوبر کا اسرائیل پر حملے کا مقصد فلسطینی کاز کو بین الاقوامی ایجنڈے کی صف اول میں واپس لانا، مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کو اس کے اقدامات کی سزا دینا اور فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔
دوسری جانب، جس جنگ کو ہتھیار بنا کر نتن یاہو دنیا بھر میں ہیرو بننے کا خواب دیکھ رہے تھے، اس جنگ نے ان کے قریبی اتحادیوں کو بھی ان کا ناقد بنا دیا۔
اسرائیل کی غزہ میں وحشیانہ کارروائیوں نے یورپی یونین سمیت کئی مغربی ممالک کو اسرائیل سے دوری بنانے پر مجبور کر دیا۔ اقوام متحدہ کی جنگ بندی قراردادوں کی ووٹنگ کے دوران اسرائیل کو کئی ممالک نے تنہا چھوڑ دیا۔ اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ، اسرائیلی عوام نے نتن یاہو کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔ اسرائیلی عوام نے یرغمالیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی کے لیے لگاتار احتجاجی مظاہرے کیے، جس کے سامنے نتن یاہو بے بس نظر آئے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف نے نسل کشی کے الزامات کے تحت نتن یاہو کی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری کیا۔ موجودہ حالات میں نتن یاہو کے سامنے اپنی حکومت بچانے کا بہت بڑا چیلنج ہے۔
جنگ کے بعد اسرائیل غزہ میں حماس کی حکومت نہیں چاہتا، لیکن حماس کی جنگی حکمت عملی کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ، حماس کے بغیر غزہ کے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: