بنگلور:'یوم حسین' کنونشن بنگلورو میں گزشتہ 32 سالوں سے ایک قابل قدر روایت رہی ہے، جہاں ممتاز علماء، سیاسی رہنما، سماجی کارکن، اور دانشور ایک ساتھ مل کر اہم موضوعات پر بات چیت کرتے ہیں۔ اس سال، جیسا کہ ہم ابھرتے ہوئے عالمی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں، یہ بہت ضروری ہے کہ ہم نفرت اور تقسیم کے خلاف متحد آواز بلند کریں۔
یوم حسین 2024 (ETV Bharat) اس موقع پر حسین ڈے کے کنوینر آغا سلطان و مہمان خصوصی حرم کربلا بورڈ آف مینیجمنٹ کے رکن ڈاکٹر سید سعد ہاشم نے کہا کہ لعین و ٹیررسٹ کا خاتمہ ضرور ہوچکا ہے، لیکن یزیدیت، ظلم، زیادتی و ناانصافی کی شکل میں ابھی بھی موجود ہے، جو کہ عالمی سطح پر دہشت پھیلا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانیت کی فلاح کے لئے اس یزیدیت کا خاتمہ لازمی ہے۔
آغا سلطان نے کہا کہ دنیا بھر میں مظلوموں پر حملے و قتل عام کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آج انسانیت کی کوئی قدر نہیں، جب کہ امام حسین نے کربلا کے میدانوں میں انسانیت، رواداری اور سماجی مساوات کے اصولوں کے لیے جدوجہد کی اور اپنا سب کچھ قربان کیا۔ لہذا امام حسین کی آئڈیولوجی پر عمل کرتے ہوئے، عالمی سطح پر جاری و ساری یزیدیت و ظلم کے خلاف آواز بلند کریں جو ہم سب کا فریضہ بھی ہے۔
اس موقع پر آغا سلطان نے حسین ڈے کنوینشن میں مدعو کئے گئے چند اہم ترین مہمانان خصوصی پر نظر ڈالی۔ آغا سلطان نے کہا کہ عالمی شہری ہونے کے ناطے یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم اجتماعی طور پر تشدد، عدم برداشت اور امتیازی سلوک میں خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے مسائل کو حل کریں۔
آغا سلطان نے کہا کہ ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ اپنے ہر وجود کے ساتھ جہالت اور ناانصافی کا مقابلہ کرتے ہوئے "سچ اور انصاف" کے لیے ثابت قدم رہنا چاہیے۔ تشدد صرف مزید تشدد کو جنم دیتا ہے۔ ایسے مسائل پر قابو پانے کا حقیقی راستہ تعلیم، بیداری، مکالمے اور رواداری میں پوشیدہ ہے۔
انہوں نے کہا ہرعقیدہ اور طرزِ زندگی ایک بنیادی عقیدہ کا اشتراک کرتا ہے۔ محبت اور ہمدردی پھیلانا۔ اگر ہم اپنے اختلافات سے بالاتر ہو کر دیکھیں تو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ ہم سب محبت کی عالمگیر بنیاد سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے آئیے ہم ہاتھ جوڑ کر نفرت پر محبت، مایوسی پر ایمان اور عدم برداشت پر قبولیت کا انتخاب کریں۔
عالمی منظر نامہ:
موجودہ عالمی بدامنی، جس نے بہت سی امن پسند قوموں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ہمیں مائل کرتا ہے کہ ہم امن اور ہم آہنگی کے مینار امام حسین کی زندگی پر غور کریں۔ بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی مناظر، بڑے پیمانے پر نقل مکانی، اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہمارے لئے بہت بڑے چیلنجز پیش کرتی ہے۔ لیکن اگر ہم امام حسین کی مثال پر عمل کرلیں تو یہ سارے مسائل ضرور حل ہو جائیں گے۔
موجودہ ضرورت:
اس دور میں، یہ ضروری ہے کہ ہم ان لوگوں سے تحریک لیں جنہوں نے تمام جانداروں کے لیے غیر متزلزل لچک اور ہمدردی کا مظاہرہ کیا ہے، جیسے کہ امام حسین اور ہمارے بابائے قوم مہاتما گاندھی۔ گاندھی جی نے کہا تھا کہ ’’میں نے حسین سے سیکھا کہ مظلوم ہوتے ہوئے کیسے فتح حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ درحقیقت، گاندھی جی کا پہلا نمک ستیہ گرہ ظالم یزید کے خلاف امام حسین کی عدم تشدد کی مزاحمت سے متاثر تھا۔ اب، پہلے سے کہیں زیادہ، ہمیں ان کی تعلیمات کو قبول کرنا چاہیے اور ایک زیادہ منصفانہ اور پرامن دنیا کی تعمیر کے لیے ہمت اور ہمدردی کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ موجودہ حالات کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: