دبئی، متحدہ عرب امارات: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز پیش کی تھی مصر اور اردن جنگ زدہ غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو اپنے یہاں لے جائیں۔ لیکن دونوں امریکی اتحادیوں کے ساتھ ساتھ خود فلسطینیوں نے ٹرمپ کی اس تجویز کو سختی کے ساتھ مسترد کر دیا۔ مصر، اردن اور خود فلسطینیوں کو اس بات کا ڈر ہے کہ اسرائیل کبھی انہیں واپسی کی اجازت نہیں دے گا۔
ٹرمپ نے ہفتے کے روز یہ تجویز پیش کرتے ہوئے عرب ممالک کے رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ غزہ کی صفائی اور تعمیر نو تک غزہ کی بے گھر آبادی کو اپنے یہاں پناہ دیں۔ امریکی صدر نے مزید کہا تھا، کہ غزہ کی 2.3 ملین سے زیادہ تر آبادی کو دوبارہ آباد کرنا عارضی یا طویل مدتی ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ نے حماس کے ساتھ اسرائیل کی 15 ماہ کی جنگ کی وجہ سے ہونے والی تباہی کا حوالہ دیا تھا۔
ٹرمپ نے کہا تھا، میں اس (غزہ) کے بجائے کچھ عرب ممالک کے ساتھ شامل ہو کر ایک مختلف جگہ پر مکانات تعمیر کروں گا، جہاں وہ (فلسطینی) تبدیلی کے لیے امن سے رہ سکیں۔
حماس اور مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی نے امریکی صدر کے اس خیال کی سختی سے مذمت کی ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے ملک کی طرف سے فلسطینیوں کی مجوزہ منتقلی کو مسترد کرنا مضبوط اور غیر متزلزل ہے۔
مصر کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ فلسطینیوں کی عارضی یا طویل مدتی منتقلی سے خطے میں تنازعات کو پھیلانے اور اس کے لوگوں کے درمیان امن اور بقائے باہمی کے امکانات کو نقصان پہنچتا ہے۔
حالانکہ، اسرائیل کی جانب سے اس معاملے میں فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے حکمران شراکت داروں نے طویل عرصے سے اس بات کی وکالت کی ہے۔ اسرائیل کے وزیر خزانہ نے ٹرمپ کی تجویز کو ایک عظیم خیال قرار دیا۔
انسانی حقوق کے گروپس پہلے ہی اسرائیل پر نسلی کشی کا الزام لگا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے اسے ایک نسلی یا مذہبی گروہ کی طرف سے مخصوص علاقوں سے دوسرے گروہ کی شہری آبادی کو تشدد اور دہشت گردی سے متاثر کرنے والے طریقوں سے ہٹانے کے لیے وضع کردہ پالیسی کے طور پر بیان کیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے اسرائیل اور فلسطین کے ڈائریکٹر عمر شاکر نے کہا کہ ٹرمپ کی تجویز، اگر نافذ ہوتی ہے تو، فلسطینی عوام کی نسلی صفائی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گا اور ان کے مصائب میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔
فلسطینیوں کے نقل مکانی کی تاریخ:
اسرائیل کی تخلیق کے ساتھ ہی 1948 کی جنگ سے پہلے اور اس کے دوران، تقریباً سات لاکھ فلسطینی موجودہ اسرائیل سے نقل مکانی کر گئے یا اپنے گھروں سے نکال دیے گئے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جسے فلسطینی نکبہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
اسرائیل نے انہیں کبھی قبول نہیں کیا اور آج تک انھیں واپس جانے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس کا ماننا ہے کہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کی سرحدوں میں فلسطینیوں کی اکثریت ہو جائے گی۔ پناہ گزینوں اور ان کی اولادوں کی تعداد اب تقریباً چھ ملین ہے۔ ان پناہ گزین فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد غزہ میں، اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں اور اردن، لبنان اور شام میں ہے۔
1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں جب اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا تو مزید 300,000 فلسطینی بھاگ کر اردن چلے گئے۔
سالوں پرانا پناہ گزینوں کا بحران اسرائیل اور فلسطین کے تنازعہ کا مرکز رہا ہے اور یہ امن مذاکرات کے سب سے نازک مسائل میں سے ایک تھا جو آخری بار 2009 میں ٹوٹ گیا تھا۔ فلسطینی واپسی کے حق کا دعویٰ کرتے ہیں، جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ انہیں پڑوسی عرب ممالک کو پناہ دینی چاہیئے۔
بہت سے فلسطینی غزہ کی تازہ ترین جنگ کو ایک نئے نکبہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ کیونکہ جنگ کے دوران غزہ کے پورے محلوں پر گولہ باری کی گئی ہے اور 90 فیصد آبادی کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر بڑی تعداد میں فلسطینی غزہ سے نکل گئے تو شاید وہ بھی کبھی واپس نہ آ سکیں۔
اپنی سرزمین پر ثابت قدم رہنا فلسطینی ثقافت کا مرکز ہے، اور اتوار کو غزہ میں اس کی واضح مثال دیکھنے کو ملی جب ہزاروں افراد نے علاقے کے سب سے زیادہ تباہ شدہ حصے شمالی غزہ میں واپس جانے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: