حیدرآباد:جون 2024 میں ہماچل پردیش کے سرمور ضلع کے ناہان قصبے میں ایک مسلم دکاندار کی ٹیکسٹائل کی دکان میں ہجوم نے توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں ہجوم کو دکان کے اندر توڑ پھوڑ کرتے اور جے شری رام کے نعرے لگاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ دکاندار جاوید پر الزام لگایا گیا کہ اس نے اترپردیش کے سہارنپور میں اپنے گاؤں میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر ایک مویشی کی قربانی کی اور اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس پر قربانی کی تصویر پوسٹ کی۔ فیس بک پر راج کمار نامی ایک شخص نے فیس بک پر اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے جاوید کے خلاف ماحول بنا دیا۔ جس کے بعد ہندو نواز تنظیموں کی مدد سے جاوید کا اچھا خاصہ کاروبار برباد کر دیا گیا۔
اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس کو قربانی کی تصویر سے سجانے وقت جاوید نے یہ قطعی نہیں سوچا ہوگا کہ اس کے ایسے دشمن بھی ہیں جو اس کی ہنستی کھیلتی زندگی کو اجاڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی ایک غلطی کی تاک میں بیٹھے شرپسند لوگ اسے اتنا بڑا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
صرف بھارت ہی نہیں دنیا بھر میں مسلمانوں کو سوشل میڈیا پر کی گئی ایک غلطی کی دردناک قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ انسانی زندگی خیالات، احساسات، نظریات اور جذبات کا نام ہے۔ ان تمام خصوصیات سے مل کر ہی ایک معاشرہ تیار ہوتا ہے۔ انسان اپنی زندگی کے ان اہم پہلوؤں، خیالات و نظریات کو عام کرنے کے لیے ہمیشہ ذرائع ابلاغ کا محتاج رہا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا ایک ایسا ذرائع ابلاغ ہے جس کو استعمال کرنے سے پہلے مسلمانوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
ہماچل پردیش کے جاوید سے لے کر ملک بھر میں کئی ایسے مسلم نوجوان ہیں جو سوشل میڈیا پر اپنی ایک متنازعہ اور جذباتی پوسٹ کی وجہ سے ملک کی جیلوں میں قیدیوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کالجوں اور اسکولوں سے انھیں معطل کر دیا گیا ہے۔ اور جو جیلوں سے باہر آنے میں کامیاب ہو گئے وہ ہمیشہ انٹلجنس کی رڈار پر ہیں۔
مسلم نوجوانوں کے متنازع پوسٹ اور قانونی کارروائیاں:
1- 24 اکتوبر 2021 کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان نے بھارت کو شکست دی تھی۔ آگرہ میں زیر تعلیم تین کشمیری طلباء کو پاکستان کی جیت کا جشن منانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان طلباء نے پاکستان کی جیت کی خوشی میں واٹس ایپ پر لو یو بابر اور بھارت میرا ملک نہیں، میرا ملک کشمیر ہے، جیسے پوسٹ شیئر کیے۔ جب ان کی پوسٹ کے اسکرین شاٹ وائرل ہوئے تو کالج انتظامیہ نے ان تینوں طلبہ کو 25 اکتوبر کو معطل کر دیا۔ بھارتیہ جنتا یووا مورچہ کے احتجاج کے بعد ان طلباء کی گرفتاری کے بعد ان تینوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153اے ،505 ایک بی اور آئی ٹی ایکٹ 2008 کی دفعہ 66 ایف کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ان کشمیری طلباء نے ملک مخالف نعرے لگائے اور انتشار پھیلانے کی کوشش کی۔
2- اگست 2021 میں پولیس نے آسام سے کم از کم 14 افراد کو گرفتار کر لیا۔ ان پر افغانستان پر طالبان کے دوبارہ قبضہ کا جشن منانے اور مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر افغانستان پر طالبان کے قبضے کی حمایت کرنے کا الزام لگایا گیا۔ ان کے خلاف یو اے پی اے، آئی ٹی ایکٹ اور سی آر پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
3- جون 2023 میں اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کی تعریف میں چند مسلم نوجوانوں کے اسٹیٹس اپ لوڈ کرنے کے بعد، مہاراشٹر کے کولہاپور شہر میں فسادات جیسے حالات پیدا ہو گئے۔ اس کے خلاف کولہاپور میں ہندو نواز تنظیموں کی طرف سے بند بلایا گیا جو پرتشدد ہونے کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی۔
4- جون 2023 میں ہی مہاراشٹر پولیس نے بیڑ ضلع کے ایک 14 سالہ لڑکے کے خلاف مبینہ طور پر مغل بادشاہ اورنگ زیب کی تعریف میں سوشل میڈیا پر اسٹیٹس میسج پوسٹ کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی تھی۔ حالانکہ بعد میں اس طالب علم نے اپنی پوسٹ ڈلیٹ کر دی اور ایک ویڈیو پیغام پوسٹ کرتے ہوئی معافی مانگ لی۔ اس طالب علم کی پوسٹ کے خلاف کچھ ہندوتوا تنظیموں نے ضلع کے ایک گاؤں میں بند کی کال دی تھی جو پر تشدد ہو گئی تھی۔
5- ستمبر2023 میں مہاراشٹر کے ستارہ ضلع کے پوسیساولی گاؤں میں سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹ کی وجہ سے پتھراؤ اور آگ زنی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ یہاں ایک مبینہ پوسٹ کو بنیاد بنا کر ایک مسلم نوجوان کو شرپسندوں نے قتل کر دیا تھا۔ جبکہ مقامی مسلم تنظیموں نے ہندوتوا گروپوں پر شہر کے کچھ مسلم نوجوانوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو ہیک کرنے کا الزام لگایا تھا۔
6- بائیس جنوری 2024 کو جموں و کشمیر پولیس نے مسمار شدہ بابری مسجد اور مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے بارے میں مبینہ طور پر تبصرہ کرنے کے الزام میں دو افراد کو گرفتار کیا تھا۔ جموں ڈویژن کے ریاسی، رام بن، راجوری اور کٹھوعہ اضلاع میں مقدمات درج کیے گئے اور چھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ گرفتار کیے گئے افراد میں ایک طالب علم بھی شامل تھا۔
مسلمانوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر اپنے احساسات اور جذبات پر قابو نہیں رکھنے کے بعد جو برے نتائج برآمد ہوئے ہیں، اس کی کئی مثالیں ہیں۔ لیکن یہ بات بھی ہمیں تسلیم کرنا چاہیئے کہ جن پوسٹس سے تشدد کے واقعات رونما ہوئے یا ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی، ایسی پوسٹ شیئر کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بے شک اظہار رائے کی آزادی ہے، لیکن جب آپ کی پوسٹ پر فوری ردعمل ظاہر کرنے کے لیے آپ کا کوئی کھلا دشمن موقع کی تاک میں ہے تو آپ ہی سونچیے آپ کو کس حد تک محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بہت سے مسلمانوں کی عادت بن گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسلام اور مسلمانوں کے ترجمان کے طور پر پیش کرنے لگے ہیں۔ مسلمانوں کو اس غلط فہمی سے باہر نکلنا ہوگا۔