اردو

urdu

ETV Bharat / opinion

ایل کے اڈوانی، رتھ یاترا سے بھارت رتن تک کا سیاسی سفر

LK Advani political journey ملک کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز 'بھارت رتن' سے نوازے جانے کے لیے نامزد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے تجربہ کار رہنما اور سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی کو ملک کا دوسرا مرد آہن کہا گیا۔ جنہوں نے رتھ یاترا کے ذریعے اجودھیا میں شری رام جنم بھومی تحریک کو ملک کے ہر گھر تک پہنچایا اور بھارتی سیاست کے مرکزی دھارے میں ہندوتوا کو ایک بڑا ایجنڈا بنا دیا۔

LK Advani political journey from Rath Yatra to Bharat Ratna
ایل کے اڈوانی، رتھ یاترا سے بھارت رتن تک کا سیاسی سفر

By UNI (United News of India)

Published : Feb 4, 2024, 8:34 PM IST

نئی دہلی: وزیراعظم نریندر مودی نے اجودھیا کے شری رام جنم بھومی کے عظیم مندر میں رام للا کی پران پرتشٹھا کے بعد جب 96 سالہ لال کرشن اڈوانی کو بھارت رتن سے نوازنے کا اعلان کیا تو بی جے پی کے کارکنان کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں اور عام لوگوں نے اس کو خوش آمدید کہا۔

وزیراعظم مودی نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ لال کرشن اڈوانی ہمارے دور کے سب سے معزز سیاست دانوں میں سے ایک ہیں اور بھارت کی ترقی میں ان کا تعاون ناقابل فراموش ہے۔ ان کی زندگی نچلی سطح پر کام کرنے سے شروع ہو کر ہمارے نائب وزیر اعظم کے طور پر ملک کی خدمت کرنے تک ہے۔ انہوں نے ہمارے وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات و نشریات کے طور پر بھی اپنی شناخت بنائی۔ ان کی پارلیمانی مداخلت ہمیشہ مثالی اور بصیرت سے بھرپور رہی ہے۔

اس اعلان کے بعد اڈوانی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انتہائی عاجزی اور شکرگزار کے ساتھ میں 'بھارت رتن' کو قبول کرتا ہوں جو آج مجھے دیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف ایک فرد کے طور پر میرے لیے بلکہ ان نظریات اور اصولوں کے لیے بھی اعزاز کی بات ہے جن کی میں نے پوری زندگی میں اپنی صلاحیت کے مطابق خدمت کرنے کی کوشش کی۔ بی جے پی کے اس تجربہ کار رہنما نے صدر دروپدی مرمو اور وزیر اعظم مودی کا بھی شکریہ ادا کیا اور خواہش کی کہ ہمارا عظیم ملک عظمت اور شان کے عروج پر پہنچ جائے۔

اڈوانی کو بھارت رتن دیئے جانے کے اعلان پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر جگت پرکاش نڈا نے کہا کہ لال کرشن اڈوانی جی کو بھارت رتن دینے کا فیصلہ ایک خوشگوار تجربہ دیتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں بی جے پی نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں، لیکن اڈوانی جی ایسے لیڈر ہیں جنہوں نے پارٹی کو سینچا اور نامساعد حالات میں کھڑا کیا۔ میں اڈوانی جی کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

لال کرشن اڈوانی اپنی بیٹی پرتبھا اڈوانی کے ساتھ

بھارتیہ جنتا پارٹی کے دیگر سرکردہ لیڈروں وزیر داخلہ امت شاہ، وزیر دفاع راجناتھ سنگھ، مرکزی وزیر نتن گڈکری، مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان اور اوما بھارتی، بہار کے وزیر اعلیٰ اور جنتا دل یونائیٹڈ کے صدر نتیش کمار، کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے سمیت کئی رہنماؤں نے اڈوانی کو بھارت رتن سے نوازے جانے کا خیرمقدم کیا ہے اور انہیں مبارکباد و نیک خواہشات پیش کی ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ لال کرشن اڈوانی 8 نومبر 1927 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کا کنبہ کراچی کے پارسی علاقے جمشید کوارٹرز میں رہتا تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم وہاں کے مشہور سینٹ پیٹرک اسکول میں ہوئی تھی۔ انہوں نے 14 سال کی عمر میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے انہیں کراچی برانچ کا سربراہ بنایا گیا۔

جب بھارت اور پاکستان کی تقسیم ہوئی تو ان کا کنبہ ممبئی آکر آباد ہوگیا۔ یہاں انہوں نے گورنمنٹ لاء کالج سے قانون میں گریجویشن کی۔ تقسیم کے ایک ماہ بعد ستمبر 1947 میں اڈوانی کراچی سے دہلی آئے۔ وہ ان چند پناہ گزینوں میں شامل تھے جو برٹش اوورسیز کارپوریشن کی پرواز سے دہلی پہنچے تھے۔

لال کرشن اڈوانی کو بھارت رتن سے نوازنے کا اعلان

اڈوانی نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز راجستھان سے کیا۔ اڈوانی 1957 کے انتخابات کے بعد دین دیال اپادھیائے کی درخواست پر دہلی آئے تھے۔ تب ان کو نو منتخب ایم پی اٹل بہاری واجپئی کے ساتھ لگایا گیا تاکہ وہ دہلی کے انگریزی بولنے والے اشرافیہ میں جگہ بنا سکیں۔ اڈوانی تب واجپئی کے ساتھ ان کی 30 راجندر پرساد روڈ پر رہائش گاہ پر رہتے تھے۔

سال 1960 میں، 'آرگنائزر' کے ایڈیٹر کے آر ملکانی نے ان سے اپنی اشاعت کے لیے فلمی جائزے لکھوانا شروع کیا۔ اڈوانی نے 'نیتر' کے نام سے فلمی ریویو کرنا شروع کیا۔ بعد میں اڈوانی نے صحافیوں کے کوٹے کے تحت آر کے پورم میں رہنے کے لیے ایک فلیٹ بھی حاصل کیا۔ اڈوانی اپنے اسکوٹر پر آر ایس ایس کے جھنڈے والان ہیڈکوارٹر جاتے تھے۔

1970 میں اڈوانی راجیہ سبھا کے رکن بنے۔ 1973 میں ان کی قیادت میں جن سنگھ میں بغاوت کو کامیابی سے کچل دیا گیا۔ کبھی پرجا پریشد کے لیڈر اور جن سنگھ کے صدر بلراج مدھوک کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔

وزیراعظم نریندرمودی، لال کرشن اڈوانی کو گلدستہ پیش کرتے ہوئے

ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی کی حکومت نے تمام اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ اڈوانی کو گرفتار کر لیا تھا۔ بعد میں وہ جن سنگھ کوٹے سے مرارجی دیسائی حکومت میں اطلاعات و نشریات کے وزیر بنے۔ سال 1980 میں انہوں نے اٹل بہاری واجپئی کی سربراہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے قیام میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔

1984 کے عام انتخابات میں بی جے پی کی عبرتناک شکست کے بعد، 1986 میں انہیں پارٹی کو زندہ کرنے اور اس کے بنیادی نظریے کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اجودھیا میں بابری ڈھانچے کا تالا کھلنے کے بعد اڈوانی نے شری رام جنم بھومی تحریک کو بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا بنایا اور پورے ملک میں رام مندر کے لیے تحریک شروع کی۔

1990 تک وہ کانگریس پارٹی کو برابری کی بنیاد پر چیلنج کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ وہ بی جے پی میں گاندھیائی سوشلزم کو اپنانے کی بحث کو روکنے میں کامیاب ہوئے اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ہندوتوا ایجنڈے کو سیاست کے مرکزی دھارے میں لے آئے۔

لال کرشن اڈوانی مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کے ساتھ

1990 میں اڈوانی کی سومناتھ سے اکودھیا تک کی رتھ یاترا نے رام مندر کے معاملے کو بھارتی سیاست کے مرکز میں لایا۔ سال 1989 میں بی جے پی نے شری رام جنم بھومی کے سنگ بنیاد کے بعد پورے ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی ماحول میں 60 سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں اور اس نے مرکز میں جنتا دل کی وی پی سنگھ حکومت کی حمایت کی۔

ملک میں ہندوتوا کے عروج کو روکنے کے لیے سماجوادی سوچ رکھنے والی وی پی سنگھ حکومت نے سرکاری تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں پسماندہ طبقات کو ریزرویشن دینے کے لیے منڈل کمیشن کی رپورٹ کو نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ آر ایس ایس جو بھارتی سماج اور خاص طور پر ہندوؤں کے اتحاد کے لیے لڑ رہی ہے، نے اس اعلان کو ہندو سماج میں تقسیم کے خطرے کے طور پر لیا۔

یہ دیکھ کر آر ایس ایس نے 26 اگست 1990 کو ایک میٹنگ بلائی جس میں اجودھیا تحریک کو رفتار دینے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اڈوانی کی قیادت میں بی جے پی نے بھی ہندو اتحاد کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنا شروع کر دیں۔ آر ایس ایس کی حمایت سے اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے اتر پردیش کے اجودھیا تک رتھ یاترا نکالنے کا اعلان کیا۔

ایل کے اڈوانی، رتھ یاترا سے بھارت رتن تک کا سیاسی سفر

سومناتھ سے اجودھیا تک کی رتھ یاترا نے پورے ملک میں ایک لہر پیدا کر دی اور اس کا سیاسی چیلنج 23 اکتوبر 1990 کو محسوس کیا گیا جب لالو پرساد یادو نے انہیں سمستی پور، بہار میں قومی سلامتی ایکٹ کی دفعہ 3 کے تحت گرفتار کروایا۔ اس کے بعد اٹل بہاری واجپئی کی قیادت نے اس وقت کے صدر آر وینکٹرمن کو مطلع کیا کہ ان کی پارٹی وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی مخلوط حکومت سے اپنی حمایت واپس لے رہی ہے۔

دو سال بعد 1992 میں جب اجودھیا میں بابری ڈھانچہ منہدم کیا گیا تو اڈوانی وہاں موجود تھے۔ بعد ازاں انہیں جھانسی کے قریب ماتتیلا ڈیم کے گیسٹ ہاؤس میں نظر بند رکھا گیا۔ اس دوران انہوں نے انڈین ایکسپریس میں دو مضامین لکھے جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ 6 دسمبر 1992 ان کی زندگی کا سب سے افسوسناک دن تھا۔ اپنی سوانح عمری میں انہوں نے لکھا ہے کہ ان کا دکھ یہ ہے کہ سنگھ پریوار بھیڑ پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

سال 1995 میں اڈوانی کی زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جب ان کا نام حوالہ کے ذریعے پیسے لینے کے معاملے میں جین ڈائری کے معاملے میں گھسیٹا گیا۔ لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف اڈوانی نے پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا اور اس وقت تک الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا جب تک وہ بری نہیں ہو جاتے۔

لال کرشن اڈوانی

ملک میں مقبولیت کی چوٹی پر پہنچنے والے اڈوانی نے ممبئی میں ایک جلسہ عام میں اعلان کیا کہ 1996 کے عام انتخابات میں اٹل بہاری واجپئی وزیر اعظم ہوں گے۔ آر ایس ایس نے اس پر ناخوشی کا اظہار کیا تھا لیکن اڈوانی اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ 1996 کے انتخابات میں بی جے پی 160 سے زیادہ سیٹیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور واجپئی کی قیادت میں مرکزی حکومت بنائی، جو کہ اکثریت حاصل نہ کر پانے کی وجہ سے صرف 13 دن چل سکی۔

جب 1998 میں بی جے پی کی زیر قیادت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کی حکومت بنی تو لال کرشن اڈوانی کو پہلے وزیر داخلہ اور پھر 2002 میں نائب وزیر اعظم بنایا گیا۔ وہ ملکی تاریخ میں 7ویں نائب وزیراعظم بن گئے۔ اس عرصے کے دوران اڈوانی نے واجپئی کے بس لاہور کے دورے، کارگل جنگ اور جنرل پرویز مشرف کے دورے میں اہم کردار ادا کیا۔

اڈوانی اپنے سیاسی کیریئر میں سب سے زیادہ بار بی جے پی کے صدر رہے ہیں، 1986-1990، 1993-1998 اور 2004-2005 تک بی جے پی کے قومی صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ اڈوانی کی قیادت میں ملک کے بڑے حصوں پر بی جے پی کی گرفت مضبوط ہوتی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے 1998 میں اقتدار میں آئی۔ این ڈی اے نے ایک بار پھر 1999 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

اڈوانی نے اپریل 2004 میں بھارت ادے یاترا نکالی۔ لیکن اگلے مہینے 2004 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو شکست ہوئی۔ اس کے بعد اڈوانی لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر بن گئے۔ 2005 کے بعد سے اڈوانی ناگپور سے آنے والے اشاروں کو پڑھنے میں ناکام رہے جس میں بار بار کہا گیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ فعال سیاست سے دستبردار ہوجائیں۔

لال کرشن اڈوانی

اسی دوران انہوں نے پاکستان کا سفر کیا۔ اس سفر کے دوران اڈوانی کے سیاسی کیریئر میں سب سے بڑا تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب انہوں نے کراچی میں محمد علی جناح کے مقبرے پر حاضری دی اور جناح کی تعریف کی۔ ان کی اپنی سمجھ یہ تھی کہ انہوں نے 'ماسٹر اسٹروک' کھیلا تھا، لیکن اس کے برعکس اس نے ان کے سیاسی کیریئر کو زبردست نقصان پہنچایا۔ بھارت واپسی پر انہیں آر ایس ایس کے دباؤ میں بی جے پی صدر کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔

2009 کے لوک سبھا انتخابات میں اڈوانی کو بی جے پی کی طرف سے ان ویٹنگ وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن اس انتخاب میں حکمراں متحدہ ترقی پسند اتحاد دوبارہ اقتدار میں آیا اور اس کے بعد اڈوانی کی جگہ محترمہ سشما سوراج کو لوک سبھا میں حزب اختلاف کی لیڈر بنایا گیا۔

نومبر 2013 میں جب نریندر مودی کو گوا میں پارٹی کی نیشنل ایگزیکٹیو میں بی جے پی کی مہم کمیٹی کا سربراہ یا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنایا گیا تو وہ بہت افسردہ تھے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو مکمل اکثریت ملنے کے بعد مودی کو پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں پارلیمانی پارٹی کا لیڈر منتخب کرتے ہوئے اڈوانی کے ایک تبصرے کی وجہ سے مودی رو پڑے تھے۔ بہت سے لوگ انہیں مارگدرشک منڈل میں بھیجے جانے سے ناخوش تھے۔

اپوزیشن لیڈروں نے بھی اس پر سوال اٹھائے۔ اس کے بعد اڈوانی حاشیے پر رہے۔ انہیں دس سال تک کسی پروگرام میں نہیں بلایا گیا۔ یہاں تک کہ انہیں 5 اگست 2020 کو شری رام جنم بھومی مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب اور 22 جنوری 2024 کو شری رام مندر میں رام للا کے پران پرتشٹھا پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن انہوں نے شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ایک ایسے لیڈر کے لیے جس نے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے بھارتیہ جنتا پارٹی کو لوگوں تک پہنچایا، کانگریس کے سیکولرازم کو بے نقاب کیا اور سیاست کے مرکزی دھارے میں ہندوتوا کو قائم کیا۔ بہت سے لوگوں کو ان کو سیاسی دھارے سے اس طرح درکنار کیا جانا پسند نہیں آیا۔ (یو این آئی)

ABOUT THE AUTHOR

...view details