نئی دہلی: پیر کو ڈرامائی پیش رفت کے بعد شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ساتھ ہی محمد یونس نے بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کے طور پر کام کرنے کی درخواست کو قبول کر لیا ہے۔ اس سے ہندوستان کو راحت کی سانس ملے گی، حالانکہ یہ راحت صرف مختصر مدت کے لیے ہوگی۔
یونس، جو کہ پیشے کے لحاظ سے ماہر اقتصادیات اور بینکر ہیں، کو حسینہ کی حکومت کی جانب سے ایک خطرہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر 2007 میں پارلیمانی انتخابات سے قبل عبوری حکومت کے اقتدار میں آنے کی صورت میں سیاست میں آنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ تاہم حسینہ انتخابات کے بعد اقتدار میں واپس آگئیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: نوبل انعام یافتہ محمد یونس، عبوری حکومت کے سربراہ مقرر
حسینہ کی قیادت والی حکومت نے بنگلہ دیش کے یونس کے گرامین بینک پر زیادہ کنٹرول کا مطالبہ کیا۔ بنگلہ دیش کا گرامین بینک ملک کا ایک بااثر ادارہ ہے، جو لاکھوں غریب لوگوں کو مالی خدمات فراہم کرتا ہے۔ حسینہ کی جانب سے کنٹرول کا مطالبہ کرنے کے بعد حکومت کا یونس کے ساتھ تنازعہ ہو گیا تھا۔ یہی نہیں، 2011 میں یونس کو گرامین بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے سے اس بنیاد پر ہٹا دیا گیا تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ کی لازمی عمر کو عبور کر چکے تھے۔ اس اقدام کو بڑے پیمانے پر سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کے طور پر دیکھا گیا اور اس کا مقصد اس کے اثر و رسوخ کو کم کرنا تھا۔
فنڈز کے غلط استعمال کا الزام
حکومت نے یونس پر مالی بدانتظامی اور فنڈز کے غلط استعمال کا الزام لگایا، حالانکہ بین الاقوامی تحقیقات نے ان دعوؤں کو بڑی حد تک مسترد کر دیا ہے۔ اس کے باوجود ان الزامات کو ان کی ساکھ کو داغدار کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یونس اور ان کے ساتھیوں کو متعدد قانونی چیلنجوں اور ریگولیٹری دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، جن میں نیشنل بورڈ آف ریونیو اور اینٹی کرپشن کمیشن کی تحقیقات شامل ہیں۔ ان کارروائیوں کو اسے ڈرانے اور بدنام کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا۔
یونس کو ہراساں کرنے پر بین الاقوامی توجہ مبذول ہوئی۔ جس کی وجہ سے بنگلہ دیش حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور نوبل انعام یافتہ سمیت ممتاز عالمی شخصیات نے یونس کی حمایت کا اظہار کیا ہے جس سے حسینہ کی حکومت کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہو رہے ہیں۔