حیدرآباد: صنعتی دور سے پہلے یعنی 1850 سے 1900 عیسوی کے درمیان عالمی درجہ حرارت میں اوسطاً ایک ڈگری سیلسیس کا اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ گرمی میں اضافے کا یہ رجحان 2016، 2017، اور 2019 اور 2023 کے دوران جزوی طور پر 1.5 ڈگری کے نشان کو عبور کر گیا ہے۔ موسمیاتی سائنسدانوں کی طرف سے یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ 2024 کے دوران کسی وقت بین الاقوامی سطح پر 1.5 ڈگری کی حد سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔
ماہرین کے مطابق، 2050 تک، دنیا کے بہت سے حصوں، بشمول بھارت، درجہ حرارت بقا کی حد سے تجاوز کر جائے گا، جس کے لیے کولنگ کے اقدامات کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اضافی گرمی علاقائی اور موسمی درجہ حرارت کی انتہاؤں کو چھوتی ہے اور قطبی خطوں نیز ہمالیائی پہاڑی سلسلے پر برف کی تہہ کو بتدریج کم کررہی ہے، شدید بارشوں کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے اور پودوں اور جانوروں کی رہائش گاہ نہ صرف تنگ ہوتی ہے، بلکہ انسانوں کے رہنے کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔
ہم بھارت سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں قدرتی آفات جیسے لینڈ سلائیڈنگ، جنگلوں میں آگ، سیلاب اور سمندری طوفانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی اور معاشی نقصانات ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل کی تازہ ترین رپورٹ نے خبردار کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ نے جو تبدیلیاں لائی ہیں وہ صدیوں کیا، ہزاروں سال تک ناقابل واپسی ہیں، خاص طور پر سمندروں کے اندر، برف کی چادروں اور عالمی سطح سمندر میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
لہذا سائنسی تحقیق کے پسِ منظر جاری کیا گیا انتباہ واضح ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی شرح کو کم کرنے کی ہماری بہترین کوششوں کے باوجود موسم کی تبدیلیاں ضرور رونما ہوتی ہیں اور بہترین طور پر ہم صرف اس کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے نئی تحقیق سے پتا چلا کہ گیس کے اخراج میں اضافے اور گرنے سے قطع نظر، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے معاشروں کو تخفیف اور موافقت دونوں کے اہداف حاصل کرنے کے لیے وسائل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
سی او پی جیسی میٹنگز کانفرنس سطح پر عالمی درجہ حرارت کو موجودہ سطح سے مزید 1.5 ڈگری تک بڑھانے سے روکنے کیلئے بحث و تمحیص کے لیے پلیٹ فارم پیش کرتی ہے۔ تخفیف سے مراد کاربن کے اخراج کو کم کرنا ہے اور جس طرح سے ممالک اخراج کی بالائی حد مقرر کرنے پر بحث کر رہے ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں کرپا رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ عالمی اوسط درجہ حرارت مزید 1.5 ڈگری سیلسیس بڑھنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
یہ منظر نامہ ہمیں موافقت کی حکمت عملیوں کو زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ترغیب دیتا ہے۔ اگرچہ ہم طویل مدتی تخفیف کی حکمت عملیوں کے بارے میں بہت کچھ سنتے ہیں، لیکن موافقت کی حکمت عملیوں کے بارے میں بہت کم سنا جاتا ہے۔