سری نگر: جموں و کشمیر حکومت کی جانب سے آیوشمان بھارت پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا کی فہرست سے چار قسم کی سرجریز کو نکالنے کی تجویز پر مریضوں اور نجی اسپتالوں کے عملے میں تشویش پھیل گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں زیادہ تر مریض جن چار اقسام کی جراحیوں کیلئے گولڈن کارڈ کا استعمال کر رہے تھے، انہیں کو فہرست سے حزف کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں اس اسکیم کی افادیت ختم ہوسکتی ہے۔
اس اسکیم کے بارے میں خدشات 19 جنوری کو اس وقت بڑھ گئے جب جموں و کشمیر کے چیف سکریٹری اتل ڈلو نے 9ویں گورننگ کونسل میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے ان چار سرجریوں کو اسکیم کی فہرست سے ہٹانے کا اشارہ دیا۔
دلو نے ڈائریکٹر جنرل کوڈز کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی جس میں دیگر ممبران اس بات کا جائزہ لیں کہ عوام کے مجموعی فائدے کے لیے ہر پیکج کو کس حد تک تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اسکیم سے نکالے جانے والے چار جراحی کے طریقہ کار میں پتے کی سرجری، بواسیر، پاخانے کی جگہ میں غدود اور اپینڈیسائٹس کی سرجری شامل ہیں۔ عمل جراحی کی یہ اقسام صرف سرکاری اسپتالوں میں دستیاب رکھی جائیں گی جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا چلا آرہا تھا۔
ماہرین صحت اور مریضوں کا کہنا ہے کہ مفت ہیلتھ اسکیم میں تبدیلی سے صحت کی دیکھ بھال پر منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اس سے ان کے علاج کے لیے انتظار کا وقت بڑھے گا اور سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کا رش بڑھے گا اور مریضوں پر مالی بوجھ پڑے گا کیونکہ وہ سرکاری اسپتالوں میں مہینوں انتظار کرنے کے بجائے نجی اسپتالوں کو ترجیح دیں گے۔
ریاستی صحت ایجنسی کے ساتھ الحاق شدہ ہسپتالوں کا نظم و نسق چلانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی انہیں مالی نقصان سے دوچار کرے گی۔ ان کے مطابق اس تبدیلی سے وہ ان مریضوں سے پیسہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے جو بصورت دیگر گولڈن کارڈ پر پرائیویٹ اسپتالوں میں عمل جراحی کا فائدہ اٹھاتے تھے۔
پرائیویٹ ہسپتالوں اور ڈائلیسز سینٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان نے کہا کہ سال 2024 میں انہوں نے 1.14 لاکھ آپریشن کیے جن میں سے 65 فیصد سے زیادہ میں پتے، بواسیر اور اپینڈیسائٹس جیسی سرجری شامل ہیں۔ لیکن حکومت کی طرف سے چار قسم کی جراحی کو ڈی لسٹ کرنے اور بجٹ کی امداد میں ترمیم کرنے کی تجویز سے مریضوں اور صحت کے مراکز کو بھی زیادہ نقصان پہنچے گی۔
اسٹیٹ ہیلتھ ایجنسی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر سنجیو گڈھکر نے کہا کہ یہ اسکیم 2300 جراحی کے طریقے فراہم کرتی ہے جو کہ فہرست میں شامل اسپتال اور صحت کے مراکز کرسکتے ہیں۔ ان کے مطابق چند سرجریز کو فہرست سے ہٹانے سے اسکیم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
چیف سکریٹری ڈلو نے کئی دیگر ہدایات بھی جاری کیں جن میں آئندہ سائیکل (14 مارچ 2025 سے آگے) کے لیے نئے بیمہ کنندہ کی خدمات حاصل کرنا (سابق بیمہ کمپنی مقررہ مدت سے قبل ہی بھاگ گئی تھی)، ستر سال سے زیادہ عمر کے شہریوں کی کوریج کو یقینی بنانا، گولڈن کارڈز کی نقل کی جانچ کرنا اور کسی بھی ہسپتال کے ذریعے مقررہ ضوابط کی پاسداری نہ کرکے فراڈ طریقے استعمال کرنے کے امکانات کو روکنے کی تدابیر شامل ہیں۔
پرائیویٹ ہسپتال اور ڈائیلاسز سینٹرز ایسوسی ایشن نے دھمکی دی ہے کہ وہ 15 مارچ سے اسکیم سے دستبردار ہو جائیں گے کیونکہ جنرل کونسل کے اجلاس میں کیے گئے فیصلے ان کے مفاد میں نہیں ہیں۔
اسوسی ایشن کے ایک ترجمان نے کہا کہ حکام کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ڈائیلاسز کے مریضوں کے لیے شرحوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ان کی زیر التواء ادائیگیوں کوواگزار کرنا چاہیے۔ بجٹ اور جراحی کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں کرنی چاہیے۔ مرکزی حکومت نے آیوشمان بھارت اسکیم کے بجٹ کو 24 فیصد بڑھا کر 9406 کروڑ کر دیا ہے لیکن جموں و کشمیر حکومت بجٹ میں ترمیم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
گڈھکر نے کہا کہ یہ اسکیم جموں و کشمیر میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے کیونکہ معقول طریقے سے جمع کرائے گئے کل 3,36,859 کیسز کیلئے درج فہرست اسپتالوں کو 222.58 کروڑ روپے ادا کئے گئے ہیں۔ صرف 3198 کیسز کو مسترد کیا گیا ہے کیونکہ ایجنسی کو لگا ہے کہ ان میں کئے گئے دعوے ثابت نہیں کئے جاسکتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں 85 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے گولڈن کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔
یہ ایک مفت صحت اسکیم ہے جس میں حکومت مریض کے لیے ہسپتال، دوا اور ڈاکٹر کے اخراجات برداشت کرتی ہے۔ اسے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2018 میں ہندوستان کے تمام باشندوں کو 5 لاکھ روپے تک کا ہیلتھ انشورنس فراہم کرنے کے لیے شروع کیا تھا۔