آج قومی یوم صحافت ہے۔ آج کے دن ہر اخبار اپنے پہلے صفحے پر یہ نعرہ چسپاں کر دیتا ہے کہ ’’ہم آزاد، غیر جانبدارانہ اور اخلاقی صحافت کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘ یہ گویا اس عزم کی تجدید ہوتی ہے کہ ان صحافتی اداروں کا نصب العین کیا ہے۔ شاید بہت سے میڈیا اداروں کے لیے یہ محض ایک اشتہار ہو سکتا ہے لیکن ایناڈو گروپ کیلئے یہ لائف لائن ہے۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ 58 سال قبل آج ہی کے دن پریس کونسل آف انڈیا معرض وجود میں آیا تھا جس کی یاد میں قومی پریس ڈے منایا جاتا ہے لیکن پریس کونسل کے وجود میں آنے سے تیس سال پہلے، ’’ایناڈو‘‘ کے بانی، راموجی راؤ، 16 نومبر 1936 کو ضلع کرشنا کے گاؤں پیڈاپاروپڈی میں پیدا ہوئے۔ میڈیا کے افق پر انہوں نے جو پیش رفت کی وہ نہ صرف قابل تقلید ہے بلکہ آج تک ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے اپنے کام کا دائرہ صرف میڈیا تک ہی محدود نہیں رکھا۔ فائنانس، فلم پروڈکشن، اسٹوڈیو مینجمنٹ، فوڈ انڈسٹری، سیاحت، ہوٹل، دستکاری، ٹیکسٹائل، تعلیم اور دیگر کئی میدانوں میں انہوں نے قدم رکھا اور اس عمل کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کو ملازمت فراہم کی۔ ان کاروباروں سے ٹیکس اور ڈیوٹیز کے ذریعے ہزاروں کروڑ روپے حکومت کو ادا کئے گئے۔اپنے قیام کے بعد سے اب تک دنیا کے سب سے بڑے اوپن ایئر اسٹوڈیو، یعنی راموجی فلم سٹی میں اڑھائی کروڑ لوگ سیر و سیاحت پر آئے ہیں۔ آج اس ملک کو راموجی راؤ جیسے دولت اور روزگار پیدا کرنے والوں کی ضرورت ہے۔
راموجی راؤ ایک مہم جو شخصیت کے مالک تھے جو اس علاقے میں داخل ہوتے تھے جہاں اس سے پہلے کسی نے قدم نہیں رکھا ہو۔ ان کی زندگی اس بات کا عملی نمونہ تھی کہ صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو بڑے خواب دیکھنے کی غیر معمولی ہمت رکھتے ہیں اور انہیں کامیابی سے پورا کر سکتے ہیں۔ ایپل کے خالق اسٹیو جابس کے یہ الفاظ راموجی راؤ پر صادق آتے ہیں کہ ’’وہ جنونی لوگ جو دینا کو تبدیل کرنے کی سوچ رکھتے ہیں، اصل میں وہی کر کے دکھاتے ہیں۔‘‘ راموجی راؤ اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ ’’تبھی مطمئن ہوتے ہیں جب وہ کچھ ایسا کرتے ہیں جو کوئی اور نہیں کر سکتا۔‘‘
آہنی عزم
راموجی راؤ نے نے وشاکھاپٹنم میں ایک تیلگو روزنامہ شروع کیا، جس نے آغاز کے چار سال کے اندر ہی اسے بلندیوں پر پہنچا دیا۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر ایڈیشن سینٹرز کو ایک ساتھ 26 اضلاع تک پھیلا دیا۔ 1983 میں انہوں نے ایک غیر مستحکم سیاسی ماحول کے درمیان تیلگو دیشم پارٹی کی حمایت کی۔ اگلے سال، انہوں نے مرکز کے ذریعے این ٹی آر حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جمہوریت کی بحالی کے لئے کام کرنے والی تحریک کو بہت ضروری آکسیجن فراہم کی۔ انہوں نے دنیا کی مشہور فلم سٹی کی داغ بیل ڈالی اور پھر انہوں نے تمام بڑی ہندوستانی زبانوں میں ای ٹی وی چینلز اور پھر ای ٹی وی بھارت کو متعارف کیا۔
راموجی راؤ کی زندگی کی مہم جوئی میں 2006 اور 2022 کے سال بھی اہمیت کے حامل ہیں جب اس وقت کی حکومتوں نے ایناڈو گروپ کو تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن انہوں نے اپنی ساری پونجی کو داؤ پر لگانے کو ترجیح دی لیکن ہار نہیں مانی۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ اگر ’’عزم ہے تو آسمان کی حد ہے۔‘‘ راموجی راؤ نے اپنی زندگی میں جو بلندیاں طے کیں اور طاقت کے منبع اور مراکز کے ساتھ انکے جو روابط رہے، ان سے انکی زندگی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ وہ ہمیشہ عاجزی اور انکساری کا پیکر رہے۔
راموجی راؤ کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر چیز کو مختلف انداز سے دیکھتے تھے اور اس پر سوچتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے ’’آؤٹ آف باکس،‘‘ یعنی بالکل الگ انداز میں سوچنا چاہئے۔ انکا یقین ایسا مستحکم ہوتا تھا کہ وہ نتائج کے بارے میں پیش گوئی کیا کرتے تھے۔ 88 سال کی عمر میں بھی انکے خیالات موجودہ زمانے کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے تھے۔ ان کی جسمانی کمزوریاں ان کے خیالات کی روانی کو روک نہیں سکتے تھے۔ ان کے آخری دنوں میں بھی یہی حالت رہی جب وہ ہسپتال میں داخل تھے۔
عوامی فلاح و بہبود سب سے مقدم
راموجی راؤ کے لیے لوگ دیوتاؤں کی مانند ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ عقائد کے اعتبار سے ملحدانہ نظریات کے قائل تھے لیکن عملی زندگی میں انہوں نے ہمیشہ دوسروں کے لیے ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور وہ جو بھی کرتے اس میں عوام کو ترجیح دیتے۔ اگر انفرادی فائدے اور عوامی فلاح و بہبود کے درمیان کوئی تصادم ہوا تو وہ مؤخر الذکر کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے دیکھے جاتے تھے۔ جب جمہوریت کو خطرہ ہوتا تھا تو وہ غصے سے بھڑک اٹھتے تھے اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے اپنے میڈیا کو عوام کے لیے ہتھیار بنا دیتے تھے۔ تیلگو آبادی میں ایناڈو کو بہت زیادہ قارئین حاصل ہونے کے باوجود وہ پیشہ ورانہ مہارت پر قائم رہے۔ انہوں نے اس ساکھ کی ایسے حفاظت کی جیسے یہ ان کی زندگی تھی۔ آفات کے وقت وہ اپنے فلاحی پروگراموں کے ذریعے لوگوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ انہوں نے اسے ’’ایناڈو‘‘ کے ابتدائی دنوں سے اپنا پروگرام بنایا جب یہ صرف معمولی منافع کما رہے تھے۔ انہوں نے ’’ایناڈو ریلیف فنڈ‘‘ شروع کیا جو قدرتی آفات سے تباہ ہونے والی کمیونٹیز اور دیہات کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ چالیس برسوں میں اس فنڈ پر کئی سو کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اکیلے راموجی فاؤنڈیشن نے عوامی بہبود پر تقریباً 100 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد راموجی گروپ آف کمپنیز نے اسی راستے پر چلنے کا مشن جاری رکھا ہے۔
تیلگو سے محبت
راموجی راؤ کی تیلگو لوگوں اور زبان سے محبت بہت زیادہ تھی جب کہ وہ قومی نقطہ نظر رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ تیلگو ریاستوں کی ترقی کا تعلق تیلگو زبان کی ترقی سے ہے۔ تیلگو کے لیے ان کی محبت ان کے رسالوں جیسے چٹورا، وپولا، تیلگو ویلگو اور بالا بھارتم میں زیادہ واضح تھی۔ انہوں نے اپنے اخبار اور کاروباری اداروں کے لیے مناسب تیلگو ناموں کا بھی انتخاب کیا۔
گروپ کا عروج
راموجی راؤ کے دور میں یہ گروپ بہت بلندیوں پر پہنچا اور مختلف شعبوں میں سرفہرست ہے۔ انہوں نے دن رات محنت کی تاکہ وہ اس گروپ کو کامیابی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔ وہ دن میں 14 سے 16 گھنٹے کام کرتے تھے اور کبھی سست روی کا شکار نہیں ہوتے تھے۔