کولگام (اشفاق احمد میر): ماضی میں جنوبی کشمیر کے کولگام میں دھان کی پیداوار کافی زیادہ ہوتی تھی جس کی وجہ سے اس ضلع کو ''دی رائس باول آف کشمیر'' بھی کہا جاتا تھا لیکن دور حاضر میں ضلعے کثیر رقبہ اراضی دھان کے بجائے پودوں کی نرسری کے زیر استعمال ہے جس کی وجہ سے یہاں دھان کی پیداوار میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور آج اس ضلع کو پلانٹ نرسریز کا مرکز مانا جاتا ہے۔
ضلع کے مختلف علاقوں سے وابستہ کثیر آبادی نے اپنی زرعی اراضی کو پلانٹ نرسریز میں تبدیل کر کر دیا ہے۔ اس نئی صنعت سے ضلع بھر کے ہزاروں پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان اپنی روزی کما رہے ہیں۔
ضلع میں سینکڑوں نرسریز یونٹس قائم ہیں، جن میں مختلف اور جدید اقسام کی ہائی بریڈ نسل کے پودے موجود ہیں، یہی نہیں بلکہ ان نرسریوں میں اٹلی و امریکہ مختلف شہروں واشنگٹن، کیلیفورنیا اور دیگر کئی ممالک کے مختلف اقسام کے پودے اور روٹ اسٹاک موجود ہیں۔
ضلع کولگام کا کیموہ علاقہ ضلع میں سب سے زیادہ پلانٹ نرسری کی صنعت سے جڑا ہوا ہے یہاں کی تقریبا نوے فیصد آبادی اس صنعت سے وابستہ ہے۔
ڈسٹرکٹ ہارٹیکلچر افسر کولگام نثار احمد نے کہا کہ کولگام ضلع کا وسیع رقبہ پلانٹ نرسریز کے زیر کاشت ہے۔ ان نرسریز میں اعلی معیار کے سیب اخروٹ، چری، خوبانی، پیچ، کیوی، و دیگر کئی اقسام کے پلانٹس اگائے جاتے ہیں۔
نثار احمد کے مطابق کیموہ علاقہ میں 100 سے زائد پلانٹ نرسری یونٹس قائم ہیں جو ضلع میں سرفہرست ہے، وہیں پورے ضلع میں سینکڑوں نرسریز یونٹس موجود ہیں جن سے سالانہ 100 کروڑ مالیت سے زیادہ کی پیداوار ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نرسریز کا باضابطہ اندارج کیا گیا ہے اور پودے خریدنے کے خواہاں افراد پورٹل کے ذریعہ اپنا داخلہ فارم جمع کراسکتے ہیں جس سے انہیں 80 فیصد تک کی سبسڈی پر پودے فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بڈگام کی شہتوت نرسری، کرم کشوں کو بااختیار بنانے کی اور گامزن
پلانٹ نرسری سے وابستہ تاجر ڈاکٹر اعجاز احمد نے کہا کہ ان کے علاقے کیموہ کولگام کے لوگ پلانٹ نرسریز کی پیداوار میں کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ ایک پی ایچ ڈی اسکالر ہونے کے باوجود انہوں نے نرسری کی کاشتکاری اور کاروبار میں اپنے روزگار کی تلاش کی اور آج ان کے پاس لاکھوں کی تعداد میں پلانٹس اور روٹ اسٹاک موجود ہیں۔ اعجاز کا کہنا ہے کہ ہائی ڈینسٹی سیب باغات کے بڑھتے رجحان کے بعد انہوں نے اٹلی سے و دیگر ممالک سے روٹ اسٹاک درآمد کیا اور گرافٹنگ کے ذریعہ غیر ملکی نسل خاص طور پر گالا، ویرائٹی کے سیب کے پودوں کا بھاری اسٹاک تیار کیا۔ اسی طرح دیگر نرسری مالکان نے بھی بھاری مقدار میں اعلی کوالٹی کے پلانٹس اگائے ہیں جس سے مارکیٹ میں کسانوں کو نہ صرف معقول قیمتوں میں پودے حاصل ہوں گے بلکہ اس سے غیر ملکی درآمدات کا دارومدار بھی کافی حد تک کم ہو جائے گا اور یہاں کی معیشیت کو بھی فائدہ ملے گا۔
مزید پڑھیں: نایاب سبزیوں کی کاشت میں سرفہرست جنوبی کشمیر کا یہ گاؤں
افشان احمد نام کے اور ایک نوجوان نے کہا کہ وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ گزشتہ کئی برسوں سے پلانٹ نرسریز کے ساتھ جڑے ہیں، جس سے انہیں اچھی خاصی آمدنی حاصل ہو رہی ہے۔ افشان کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف خود بلکہ کئی دیگر افراد کو بھی روزی فراہم کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گاندربل میں ملبری نرسری کے قیام کا منصوبہ آج بھی ادھورا