ETV Bharat / opinion

جنوبی ایشیا کا بدلتا چہرہ - CHANGING FACE OF SOUTH ASIA

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ حکومت کا خاتمہ اور بھارتی حکام کی افغان وزیر سے ملاقات کے پس منظر میں میجرجنرل (ر) ہرشاککڑ کا مضمون۔

سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے 8 جنوری 2025 کو دبئی میں افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ملاقات کی۔
سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے 8 جنوری 2025 کو دبئی میں افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ملاقات کی۔ (Etv Bharat)
author img

By Major General Harsha Kakar

Published : Jan 15, 2025, 7:19 PM IST

Updated : Jan 15, 2025, 7:46 PM IST

ہندوستانی سیکریٹری خارجہ وکرم مصری اور افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کے درمیان دبئی میں ہونے والی حالیہ ملاقات جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے منظر نامے کی تازہ ترین عکاسی ہے۔ گزشتہ سال اگست میں بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد منظر نامے میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔ تب سے، بنگلہ دیش کی جانب سے بھارت سے مسلسل حمایت اور چاول کی دستیابی کی درخواستوں کے باوجود، اس نے پاکستان کی طرف قدم بڑھانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس 26 ستمبر 2024 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس 26 ستمبر 2024 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔ (Etv Bharat)

بدلتے منظرنامے کی عکاسی اس سے بھی ہورہی ہے کہ بنگلہ دیش نے پاکستان سے گولہ بارود اور غذائی اجناس کی درآمد شروع کی ہے جبکہ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار مستقبل قریب میں بنگلہ دیش کا دورہ کررہے ہیں۔ ڈار کے الفاظ میں بنگلہ دیش پاکستان کا کھویا ہوا بھائی ہے۔ ڈار کا دورہ بنگلہ دیش ملک کے قائمقام رہنما، محمد یونس، اور پاکستان کے وزیر اعظم، شہباز شریف کے درمیان حالیہ ملاقاتوں کے بعد طے ہوا ہے۔ ان ملاقاتوں میں دونوں نے ملکی تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ محمد یونس تواتر کے ساتھ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ سارک کو دوبارہ متحرک کیا جائے جس پر بھارت سردمہری دکھا رہا ہے حالانکہ ڈھاکہ کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بہتر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے 26 ستمبر 2024 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی۔
بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے 26 ستمبر 2024 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی۔ (Etv Bharat)

یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مسلح افواج کے درمیان (ملٹری ٹو ملٹری) تعاون بڑھ رہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ بنگلہ دیش پاکستان سے شارٹ رینج کے ابدالی بیلسٹک میزائل اور ترکی سے ٹینک خریدنے پر غور کررہا ہے جس کا مطمح نظر بھارت کے خلاف ایک دفاع مستحکم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اس سال فروری سے پاکستانی فوج بنگلہ دیش کی افواج کو تربیت دینے کا آغاز کرے گی۔ یہ تربیت بنگلہ دیش کی چار چھاؤنیوں میں منعقد کی جائے گی۔ پاکستانی ٹیم کی قیادت میجر جنرل رینک کا افسر کرے گا۔

بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مسری 10 دسمبر 2024 کو ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے ملاقات کی۔
بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مسری 10 دسمبر 2024 کو ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے ملاقات کی۔ (Etv Bharat)

گوکہ پاک فوج کی تربیت بھارت کے لیے کوئی بڑی تشویش نہیں ہے مگر تشویش کی بات وہ بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی ہے جسے پاکستان بڑھاوا دینے کی کوشش کرے گا۔ بنگلہ دیش کو بھارت کے سوا کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ملک میں پاکستان کے داخلے کے ساتھ ہی چین بھی اس کی پیروی کرے گا۔ یہ ایک اضافی تشویش ہوگی۔ مزید یہ کہ اس سے پاکستان کی آئی ایس آئی کے لیے ملک میں بھارت مخالف باغی گروہوں کو تربیت دینے کے لیے اڈے دوبارہ قائم کرنے کے لیے دروازے کھل جائیں گے۔ یہ پہلے بھی ایسا کرتا تھا۔ بنگلہ دیش بھی کشمیری عسکریت پسندوں کو بھارت منتقل کرنے کا راستہ بن سکتا ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ یہ کام شروع ہو چکا ہے۔


ہندوستانی سیکریٹری خارجہ اور افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ کے درمیان ملاقات اسلام آباد کو انتباہ دینے کا ذریعہ تھی کہ اگر اس نے بنگلہ دیش سے ہندوستان کو چھیڑنے کا ارادہ کیا تو اسکے کیا نتائج ہوسکتے ہیں۔ فی الحال، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر نہیں ہیں، حالانکہ پاکستان نے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کے خلاف اپنی جدوجہد کے دوران طالبان کی حمایت کی تھی۔ تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی اور بلوچ فریڈم فائٹرز کے بڑھتے ہوئے حملوں نے، جو افغانستان کی سرزمین سے کام کرتے ہیں، پاکستانی فوج کیلئے مسائل پیدا کئے ہیں۔ مایوسی کے عالم میں، پاکستان نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ایک مبینہ ٹھکانے پر فضائی حملہ کیا۔ اس کے نتیجے میں تقریباً پچاس افراد ہلاک ہوئے، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی جوزیادہ تر پاکستان سے واپس آئے تھے۔ جس کی وجہ سے کابل کی طرف سے جوابی کارروائی کی گئی۔


بھارت نے افغانستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور فضائی حملے پر تنقید کی، جس کے بارے میں پاکستان نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے لوگوں کو مزید حملوں سے بچانے کے لیے تھا۔ بھارتی دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ بھارت معصوم شہریوں پر کسی بھی حملے کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ اپنی اندرونی ناکامیوں ناکامیوں کا ذمہ دار اپنے پڑوسیوں کو ٹھہراتا ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ بھارت واحد ملک تھا جس نے ایسا کیا۔ دبئی میں ملاقات سے عین قبل یکجہتی کا یہ مظاہرہ نمایاں تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت، اگفانستان کی پاکستان مخالف جدوجہد میں اسکا موافق ہے۔ افغانستان میں ہندوستان کی پوزیشن بہتر ہے۔ مدد اور حمایت کے لیے بھارت کا احترام کیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ افغانستان میں سب سے زیادہ نفرت کرنے والے ادارے پاکستان اور داعش ہیں، جن کی راولپنڈی حمایت کرتا ہے۔ بھارت اپنے تازہ ترین اقدامات سے اس جذبہ خیر سگالی کی بنیاد رکھ رہا ہے۔


دبئی میں ہونے والی ملاقات میں انسانی امداد، ترقیاتی منصوبوں، پاکستان کی کراچی کے برعکس چابہار بندرگاہ کے استعمال اور اس سے معاشی دباؤ کس قلع قمع کرنے، صحت اور کرکٹ جیسے شعبوں میں تعاون جیسے امورات پر زور دیا گیا۔ افغان فریق نے عالمی چیلنجنگ حالات کے باوجود، افغانستان کے ساتھ روابط کے لیے ہندوستان کی جاری حمایت اور عزم کے لیے شکریہ ادا کیا۔ بھارت میں افغان سفارت خانہ بند ہے جبکہ کابل میں بھارتی سفارت خانے میں امداد کی نگرانی کے لیے صرف بنیادی عملہ ہے۔ بھارت نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔


پاکستان نے بھارتی اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے لیے، ملک میں ہندوستانی موجودگی میں اضافے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہندوستان افغانستان میں اپنے تمام قونصل خانے بند ہونے کے باوجود، افغانستان کی سرزمین سے اپنی سرزمین پر حملوں کو بڑھا سکتا ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان نے کہا کہ 'جب بھی پاک افغان تعلقات میں اختلافات اور تناؤ ظاہر ہوتا ہے تو ہندوستان کو اپنی جگہ بڑھانے اور پاکستان کے ساتھ افغانستان کے برادرانہ ہمسایہ تعلقات کو روکنے کا موقع مل جاتا ہے۔


آج تک امریکہ بالواسطہ طور پر افغانستان کی مالی معاونت کر رہا تھا۔ گزشتہ سال مئی کے امریکی خارجہ امور کی کمیٹی کے ایک بیان میں چیئرمین مائیکل میک کاول کا حوالہ دیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 'اگست 2021 میں بائیڈن انتظامیہ کے افغانستان سے شرمناک انخلاء کے بعد سے، امریکی حکومت نے طالبان کے قبضے سے پیدا ہونے والے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے 2.8 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے، 'طالبان کو فائدہ پہنچانے کے لیے امریکی فنڈنگ ناقابل قبول ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کو امریکی ٹیکس دہندگان کے ڈالر طالبان کے پاس جانے سے روکنے کے لیے فوری کارروائی کرنی چاہیے۔


طالبان نے امریکہ کی طرف سے کسی قسم کی امداد حاصل کرنے کی تردید کی ہے۔ اس کے ترجمان نے کہا کہ حقیقت میں امریکہ نے امارت اسلامیہ کو ایک پیسہ بھی فراہم نہیں کیا۔ اس کے بجائے، اس نے اربوں ڈالر ضبط اور منجمد کر دیے ہیں جو بجا طور پر افغانستان کے لوگوں کے ہیں۔ ٹرمپ نے افغانستان کو ایسی تمام امداد بند کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اعداد و شمار کچھ بھی ہوں، اب یہ بھارت ہی ہو گا جو افغانستان کی حمایت میں آگے ٓائے گا۔ اگرچہ ہندوستانی امداد کا مقصد امریکہ کا مقابلہ نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کا فائدہ پاکستان کو وارننگ کے طور پر لیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: مہاراشٹر کا انتخابی نتیجہ پوار اور ٹھاکرے کے لیے بقا کا مسئلہ - MAHARASHTRA ASSEMBLY POLLS 2024

حالیہ ملاقات اور افغانستان کے لیے مستقبل کی امداد ایک خاموش پیغام ہے کہ اگر پاکستان بنگلہ دیش کا بھارت کی طرف استحصال کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں بھارت پاکستان کے لیے مشکل بنا سکتا ہے کہ وہ کابل کو اسلام آباد کے خلاف ٹی ٹی پی اور بلوچوں کا مزید استحصال کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔ بھارت اب بھی جغرافیائی قربت کو دیکھتے ہوئے بنگلہ دیش کو سنبھال سکتا ہے اور اس کے ساتھ بھی مشغول ہو سکتا ہے، جبکہ پاکستان کو افغانستان سے بڑھتے ہوئے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ہندوستانی سیکریٹری خارجہ وکرم مصری اور افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کے درمیان دبئی میں ہونے والی حالیہ ملاقات جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے منظر نامے کی تازہ ترین عکاسی ہے۔ گزشتہ سال اگست میں بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد منظر نامے میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔ تب سے، بنگلہ دیش کی جانب سے بھارت سے مسلسل حمایت اور چاول کی دستیابی کی درخواستوں کے باوجود، اس نے پاکستان کی طرف قدم بڑھانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس 26 ستمبر 2024 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس 26 ستمبر 2024 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔ (Etv Bharat)

بدلتے منظرنامے کی عکاسی اس سے بھی ہورہی ہے کہ بنگلہ دیش نے پاکستان سے گولہ بارود اور غذائی اجناس کی درآمد شروع کی ہے جبکہ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار مستقبل قریب میں بنگلہ دیش کا دورہ کررہے ہیں۔ ڈار کے الفاظ میں بنگلہ دیش پاکستان کا کھویا ہوا بھائی ہے۔ ڈار کا دورہ بنگلہ دیش ملک کے قائمقام رہنما، محمد یونس، اور پاکستان کے وزیر اعظم، شہباز شریف کے درمیان حالیہ ملاقاتوں کے بعد طے ہوا ہے۔ ان ملاقاتوں میں دونوں نے ملکی تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ محمد یونس تواتر کے ساتھ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ سارک کو دوبارہ متحرک کیا جائے جس پر بھارت سردمہری دکھا رہا ہے حالانکہ ڈھاکہ کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بہتر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے 26 ستمبر 2024 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی۔
بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے 26 ستمبر 2024 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی۔ (Etv Bharat)

یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مسلح افواج کے درمیان (ملٹری ٹو ملٹری) تعاون بڑھ رہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ بنگلہ دیش پاکستان سے شارٹ رینج کے ابدالی بیلسٹک میزائل اور ترکی سے ٹینک خریدنے پر غور کررہا ہے جس کا مطمح نظر بھارت کے خلاف ایک دفاع مستحکم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اس سال فروری سے پاکستانی فوج بنگلہ دیش کی افواج کو تربیت دینے کا آغاز کرے گی۔ یہ تربیت بنگلہ دیش کی چار چھاؤنیوں میں منعقد کی جائے گی۔ پاکستانی ٹیم کی قیادت میجر جنرل رینک کا افسر کرے گا۔

بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مسری 10 دسمبر 2024 کو ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے ملاقات کی۔
بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مسری 10 دسمبر 2024 کو ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے ملاقات کی۔ (Etv Bharat)

گوکہ پاک فوج کی تربیت بھارت کے لیے کوئی بڑی تشویش نہیں ہے مگر تشویش کی بات وہ بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی ہے جسے پاکستان بڑھاوا دینے کی کوشش کرے گا۔ بنگلہ دیش کو بھارت کے سوا کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ملک میں پاکستان کے داخلے کے ساتھ ہی چین بھی اس کی پیروی کرے گا۔ یہ ایک اضافی تشویش ہوگی۔ مزید یہ کہ اس سے پاکستان کی آئی ایس آئی کے لیے ملک میں بھارت مخالف باغی گروہوں کو تربیت دینے کے لیے اڈے دوبارہ قائم کرنے کے لیے دروازے کھل جائیں گے۔ یہ پہلے بھی ایسا کرتا تھا۔ بنگلہ دیش بھی کشمیری عسکریت پسندوں کو بھارت منتقل کرنے کا راستہ بن سکتا ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ یہ کام شروع ہو چکا ہے۔


ہندوستانی سیکریٹری خارجہ اور افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ کے درمیان ملاقات اسلام آباد کو انتباہ دینے کا ذریعہ تھی کہ اگر اس نے بنگلہ دیش سے ہندوستان کو چھیڑنے کا ارادہ کیا تو اسکے کیا نتائج ہوسکتے ہیں۔ فی الحال، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر نہیں ہیں، حالانکہ پاکستان نے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کے خلاف اپنی جدوجہد کے دوران طالبان کی حمایت کی تھی۔ تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی اور بلوچ فریڈم فائٹرز کے بڑھتے ہوئے حملوں نے، جو افغانستان کی سرزمین سے کام کرتے ہیں، پاکستانی فوج کیلئے مسائل پیدا کئے ہیں۔ مایوسی کے عالم میں، پاکستان نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ایک مبینہ ٹھکانے پر فضائی حملہ کیا۔ اس کے نتیجے میں تقریباً پچاس افراد ہلاک ہوئے، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی جوزیادہ تر پاکستان سے واپس آئے تھے۔ جس کی وجہ سے کابل کی طرف سے جوابی کارروائی کی گئی۔


بھارت نے افغانستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور فضائی حملے پر تنقید کی، جس کے بارے میں پاکستان نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے لوگوں کو مزید حملوں سے بچانے کے لیے تھا۔ بھارتی دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ بھارت معصوم شہریوں پر کسی بھی حملے کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ اپنی اندرونی ناکامیوں ناکامیوں کا ذمہ دار اپنے پڑوسیوں کو ٹھہراتا ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ بھارت واحد ملک تھا جس نے ایسا کیا۔ دبئی میں ملاقات سے عین قبل یکجہتی کا یہ مظاہرہ نمایاں تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت، اگفانستان کی پاکستان مخالف جدوجہد میں اسکا موافق ہے۔ افغانستان میں ہندوستان کی پوزیشن بہتر ہے۔ مدد اور حمایت کے لیے بھارت کا احترام کیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ افغانستان میں سب سے زیادہ نفرت کرنے والے ادارے پاکستان اور داعش ہیں، جن کی راولپنڈی حمایت کرتا ہے۔ بھارت اپنے تازہ ترین اقدامات سے اس جذبہ خیر سگالی کی بنیاد رکھ رہا ہے۔


دبئی میں ہونے والی ملاقات میں انسانی امداد، ترقیاتی منصوبوں، پاکستان کی کراچی کے برعکس چابہار بندرگاہ کے استعمال اور اس سے معاشی دباؤ کس قلع قمع کرنے، صحت اور کرکٹ جیسے شعبوں میں تعاون جیسے امورات پر زور دیا گیا۔ افغان فریق نے عالمی چیلنجنگ حالات کے باوجود، افغانستان کے ساتھ روابط کے لیے ہندوستان کی جاری حمایت اور عزم کے لیے شکریہ ادا کیا۔ بھارت میں افغان سفارت خانہ بند ہے جبکہ کابل میں بھارتی سفارت خانے میں امداد کی نگرانی کے لیے صرف بنیادی عملہ ہے۔ بھارت نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔


پاکستان نے بھارتی اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے لیے، ملک میں ہندوستانی موجودگی میں اضافے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہندوستان افغانستان میں اپنے تمام قونصل خانے بند ہونے کے باوجود، افغانستان کی سرزمین سے اپنی سرزمین پر حملوں کو بڑھا سکتا ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان نے کہا کہ 'جب بھی پاک افغان تعلقات میں اختلافات اور تناؤ ظاہر ہوتا ہے تو ہندوستان کو اپنی جگہ بڑھانے اور پاکستان کے ساتھ افغانستان کے برادرانہ ہمسایہ تعلقات کو روکنے کا موقع مل جاتا ہے۔


آج تک امریکہ بالواسطہ طور پر افغانستان کی مالی معاونت کر رہا تھا۔ گزشتہ سال مئی کے امریکی خارجہ امور کی کمیٹی کے ایک بیان میں چیئرمین مائیکل میک کاول کا حوالہ دیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 'اگست 2021 میں بائیڈن انتظامیہ کے افغانستان سے شرمناک انخلاء کے بعد سے، امریکی حکومت نے طالبان کے قبضے سے پیدا ہونے والے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے 2.8 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے، 'طالبان کو فائدہ پہنچانے کے لیے امریکی فنڈنگ ناقابل قبول ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کو امریکی ٹیکس دہندگان کے ڈالر طالبان کے پاس جانے سے روکنے کے لیے فوری کارروائی کرنی چاہیے۔


طالبان نے امریکہ کی طرف سے کسی قسم کی امداد حاصل کرنے کی تردید کی ہے۔ اس کے ترجمان نے کہا کہ حقیقت میں امریکہ نے امارت اسلامیہ کو ایک پیسہ بھی فراہم نہیں کیا۔ اس کے بجائے، اس نے اربوں ڈالر ضبط اور منجمد کر دیے ہیں جو بجا طور پر افغانستان کے لوگوں کے ہیں۔ ٹرمپ نے افغانستان کو ایسی تمام امداد بند کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اعداد و شمار کچھ بھی ہوں، اب یہ بھارت ہی ہو گا جو افغانستان کی حمایت میں آگے ٓائے گا۔ اگرچہ ہندوستانی امداد کا مقصد امریکہ کا مقابلہ نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کا فائدہ پاکستان کو وارننگ کے طور پر لیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: مہاراشٹر کا انتخابی نتیجہ پوار اور ٹھاکرے کے لیے بقا کا مسئلہ - MAHARASHTRA ASSEMBLY POLLS 2024

حالیہ ملاقات اور افغانستان کے لیے مستقبل کی امداد ایک خاموش پیغام ہے کہ اگر پاکستان بنگلہ دیش کا بھارت کی طرف استحصال کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں بھارت پاکستان کے لیے مشکل بنا سکتا ہے کہ وہ کابل کو اسلام آباد کے خلاف ٹی ٹی پی اور بلوچوں کا مزید استحصال کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔ بھارت اب بھی جغرافیائی قربت کو دیکھتے ہوئے بنگلہ دیش کو سنبھال سکتا ہے اور اس کے ساتھ بھی مشغول ہو سکتا ہے، جبکہ پاکستان کو افغانستان سے بڑھتے ہوئے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Last Updated : Jan 15, 2025, 7:46 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.