حیدرآباد: شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے شاہین، خودی، مرد مومن، عقل و عشق اور وطنیت و قومیت کا تصور اور فلسفہ انتہائی مدلل و منفرد انداز میں پیش کر کے اپنے خیالات کو زندہ و جاوید بنا دیا۔ اقبال کی سوچ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ نوجوانوں کے اندر جوش اور ولولہ پیدا کرنے والے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نو نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ جبکہ وفات 21 اپریل 1938 کو لاہور میں ہوئی تھی۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک مشہور و معروف شاعر، مصنف، قانون داں، سیاستداں اور تحریک پاکستان کے اہم ترین قائدین میں سے ایک تھے۔ ڈاکٹر اقبال اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں ان کا بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ انہوں نے 'دی ری کنسٹرکشن آف ریلیجیس تھاٹ اِن اسلام' کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔
علامہ اقبال نے 1930 الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدرات کی تھی اور اس میں وفاقی حکومت کے زیرانتظام مسلم اکثریتی علاقوں کے لیے خود مختاریت کا مطالبہ کیا تھا۔ علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے اجلاس میں پہلی بار بھارت کے اندر خود مختار مسلم ریاست کا ایک ٹھوس اور غیر مبہم خاکہ پیش کیا گیا تھا۔
علامہ اقبال کے اس خطبے کو لیگی رہنماؤں نے آگے چل کر نظریۂ پاکستان کی بنیاد مانا اور قیام پاکستان کا مطالبہ شروع کیا۔ جبکہ علامہ اقبال تقسیم کے قائل نہیں تھے، بلکہ وہ ایک وفاقی حکومت کے زیرانتظام خودمختار ریاستوں کا مطالبہ کر رہے تھے۔
علامہ اقبال کا شہرہ آفاق کلام دُنیا کے ہر حصے میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں اتحاد اور اتفاق کی تلقین کی اور دعوت عمل دی۔ مفکر پاکستان نے شاہین کا تصور اور خودی کا فلسفہ پیش کیا۔ فرقہ واریت، نظریاتی انتہا پسندی اور نئے اجتماعی گروہوں کی تشکیل جیسے معاملات پر اقبال کی سوچ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
اردو اور فارسی کے عظیم شاعر علامہ اقبال نے 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا' اور 'لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری' جیسے شہرہ آفاق ترانے لکھے ہیں جبکہ 'شکوہ اور جواب شکوہ' جیسی ان کی نظموں نے خوب پذیرائی حاصل کی ہے۔ علامہ اقبال کی اردو اور فارسی زبانوں میں تصانیف کے مجموعوں میں بال جبریل، بانگ درا، اسرار خودی، ضرب کلیم، جاوید نامہ، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق اور ارمغان حجاز شامل ہیں۔
علامہ اقبال کے یوم وفات پر ان کی ایک خوبصورت نظم ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
آزاد فکر سے ہوں عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو
ہو ہاتھ کا سرہانا سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو
مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں