محمود گامی نے کشمیری زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں اننت ناگ: محمود گامی سنہ 1765 میں ضلع اننت ناگ کے ڈورو شاہ آباد میں پیدا ہوئے۔ اس گاؤں کو محمود آباد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ محمود گامی کو کشمیر میں انیسویں صدی کے ممتاز شاعر اور بنیادی طور پر کشمیری صوفی شاعری کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے گیارہ مثنویاں اور سینکڑوں نظمیں لکھی ہیں، جو کشمیری شاعری کی نمائندگی کرتی ہیں۔ جس کی پیروی ان کے بعد متعدد شعراء نے کی ہے۔ اگرچہ لل دید اور شیخ العالمؒ کی صوفیانہ اور نثری شاعری نے کشمیری شاعری کی بنیاد ڈالی تاہم محمود گامی کو پہلے ایسے حقیقی شاعر کے طور پر مانا جاتا ہے، جنہوں نے متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔
محمود گامی کی مشہور مثنویاں جیسے شیرین فرحد، لیلیٰ مجنوں، یوسف زلیخا دراصل فارسی مثنویاں ہیں۔ جسے محمود گامی نے کشمیری زبان میں متعارف کرایا۔ یہ مثنویاں ایران سے تعلق رکھنے والے نامور شاعر نظامی اور جامی کی تحریر کردہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری زبان میں انہیں تحریر کرنے کے بعد محمود گامی کو جامی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ان مثنویوں کو منظر عام پر لانے کے بعد یہ اُنکی سب سے بڑی علمی اور ادبی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ ادباء نے محمود گامی کے کلام کا دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیا ہے۔ محمود گامی نے فارسی شاعری کے اثاثہ کو کشمیری ادب میں متعارف کرایا، جو اُنکی علمی بصیرت کو بیان کرتا ہے۔
کچھ لوگ محمود گامی کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کشمیری ادب کی آبیاری نہیں کی ہے لیکن علم و ادب سے جڑے بیشتر افراد محمود گامی کو ادبی دنیا میں ایک بڑی شخصیت کے طور پر تصور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ محمو د گامی، کشمیری ادب کے نہ صرف ممتاز شاعر تھے بلکہ اُنکے کلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عظیم علمی شخصیت بھی تھے۔ محمود گامی نہ صرف کشمیری بلکہ فارسی اور عربی زبانوں میں کافی دسترس رکھتے تھے، جبکہ اُنکے مزاحیہ کلام میں بھی ایک درپردہ پیغام ہوتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
اس لیے محمود گامی کے بعد آنے والے کشمیری شعراء کو بھی چاہیے کہ ان کے نقش قدم پر چلیں، کوئی بھی شخص صوفی شاعر محمود گامی کی شاعرانہ صلاحیتوں خصوصاً صوفیانہ کلام کے ساتھ ساتھ انکی کشمیری زبان و ادب کے لیے نثری اور ادبی خدمات کو فراموش نہیں کرسکتا ہے۔