نئی دہلی: عہد ساز شاعر جوشؔ ملیح آبادی کے انتقال کو چار دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن 40 برس کے اس عرصے میں بھی ان کا مکمل شعری سرمایہ منظرعام پر نہیں آسکا تھا۔ اب ان کی وفات کے 41 برس بعد ان کے آخری شعری مجموعے ’محمل وجرس‘ اور نثری کتاب ’فکرو ذکر‘ کی اشاعت عمل میں آئی ہے۔
امریکہ کے ہیوسٹن میں مقیم شاعر وادیب اور عاشقِ جوش، عدیل زیدی نے کسی طرح مسودات کی یافت کرکے، ترتیب وتدوین کے بعد یہ دونوں کتابیں شائع کرائی ہیں۔ ہندستان میں جوش کی یہ آخری تحریریں ’محمل وجرس‘ اور ’فکرو ذکر‘ عبارت پبلی کیشن، نئی دہلی نے اہتمام کے ساتھ طبع کی ہیں۔
عبارت پبلی کیشن نے ان کتابوں کے اجرا کے لئے ادبی و ثقافتی تنظیم ’شانِ الفاظ، کے اشتراک اور متحدہ عرب امارات میں اردو زبان و ادب اور ثقافت کی ترویج کے واسطے کوشاں ادارے ’ایپلوز ادب‘ کے تعاون سے ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا۔ یہ تقریب جوش 24 کے عنوان سے نئی دہلی کے ایوانِ غالب آڈیٹوریم میں منعقد کی گئی۔ جس میں رسم اجرا کے جلسے کے علاوہ کئی رنگا رنگ پروگرام کیے گئے۔
ممتاز اسکالر اور دانشور اشوک واجپئی نے ’محمل وجرس‘ اور نثری کتاب ’فکرو ذکرکا اجرا کیا۔ اشوک واجپئی نے ہی رسمِ اجرا کے جلسے کی صدارت کی۔ اس موقع پر پروفیسر عبدالحق، پروفیسر اخترالواسع، پروفیسرانیس الرحمن، پروفیسر خالد محمود، پروفیسر شہپر رسول، ڈاکٹر اطہر فاروقی سمیت کئی اہم دانشور اور قلم کاروں کے علاوہ مرکزی وزیر مملکت برائے پنچایتی راج ایس پی سنگھ بگھیل اور ایمبیسڈر پروفیسر انور حلیم موجود تھے۔ ’مذکورہ دونوں کتابوں کے علاوہ ڈاکٹر ہلال نقوی کی مرتبہ ’کلیاتِ جوش‘ اور جوش ؔکی سوانح عمری ’یادوں کی برات‘ کی رونمائی بھی عمل میں آئی۔
اشوک واجپئی نے صدارتی کلمات میں جوش ملیح آبادی کو اپنے وقت کا عظیم شاعرقرار دیتے ہوئے عہدِ حاضرمیں ان کی اہمیت کو اجاگرکیا۔ اشوک واجپئی نے جوش کی تخلیقات کے پس منظر میں ادب کی طاقت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ملک مٹ جاتے ہیں لیکن ادب زندہ رہتا ہے۔
انھوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ سیاست نے ادب کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ شہرت اور بازار نے ادب کو آسان کرنے کے نام پر اس کی گہرائی کو ختم کردیا ہے۔ مقرر خاص پروفیسر عبدالحق نے اپنی تقریر میں جوش کو نئے سیاق میں اور ان کی شاعری کو نئے زاویہئ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
پروفیسر اخترالواسع نے جوش ملیح آبادی کے یہاں موجود تنوع کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جوشؔ بہر حال شاعر ِانقلاب بھی تھے اور شاعرِ شباب بھی تھے۔ پروفیسر انیس الرحمن نے کہا کہ جوش کئی معنوں میں اہم شاعر ہیں، زبان کی سطح پران کی اپنی اہمیت ہے، استعارے خلق کرنے میں ان کا کوئی جواب نہیں، وہ اپنے انداز کی علامتیں نکالتے ہیں اور ان کی خلّاقیت ان کی اہمیت کا بڑا حصہ ہے۔
ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کہا کہ اہلِ قلم کی بے وقعتی کے اس عہد میں جوش ملیح آبادی جیسے اعلیٰ اقدار کے لوگوں کی یاد اس لئے بھی آتی ہے کہ وہ اپنی خودداری کے لئے بڑے سے بڑے اعزاز کو ٹھکرا دیا کرتے تھے۔