حیدرآباد: "تصوف اور اردو شاعری دونوں کی بنیاد محبت ہے۔ تصوف کو ہمارے بزرگوں نے دل کی بیداری کے طور پر پیش کیا۔ تصوف پر جغرافیائی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تصوف مذہب کا متبادل نہیں بلکہ تصوف مذاہب کے باطنی پہلو پر توجہ دیتا ہے۔" ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر و ادیب، محقق اور صحافی جناب شمیم طارق نے شعبۂ اردو، مانو کی جانب سے ”اردو شاعری میں تصوف“ کے موضوع پر توسیعی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے متعدد صوفیوں بشمول بلھے شاہ اور شعراءمیر، درد، غالب، مومن، اقبال، حسرت موہانی، جگر مرادآبادی وغیرہ کے کلام میں تصوف کے عناصر کی نشان دہی کی۔ انھوں نے مزید بتایا کہ غیر مسلم شعرا نے بھی تصوف کے مضمون کو شاعری میں برتا۔ شمیم طارق صاحب نے تصوف کی اصطلاحات مثلاً ذاتِ الٰہی، فنا اور بقا، مجاز اور حقیقت، جنت اور جہنم، سلوک و معرفت، مجذوبیت وغیرہ سے واقف کرانے کے ساتھ ساتھ مومن اور موحد کا فرق اور سوشلزم اور تصوف کے تعلق پر بھی روشنی ڈالی۔
صدر اجلاس پروفیسر سید علیم اشرف جائسی، ڈین بہبودی طلبہ اور صدر شعبہ عربی، مانو نے کہا کہ تصوف کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ خلق خدا کے ساتھ نرمی کی جائے۔ تصوف تزکیہ نفس کا نام ہے۔ تصوف صرف اسلام میں ہے۔ بقیہ مذاہب میں روحانیت ہے۔ ابن عربی نے وحدت الوجود کا نظریہ پیش کیا۔ یہ ایک فلسفیانہ نظریہ ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ تصوف نے تین کام کیے۔ تبلیغ کتاب یعنی قرآنی تعلیمات کو عام کیا، نفوس کی تطہیر کی اور علم و حکمت یعنی شریعت کی تشہیر کی۔ ان کے مطابق تصوف نے ہمیں دو تحفے اردو شاعری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی عطا کیے۔انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ تصوف ہمارے منظرنامہ سے غائب ہوگیا ہے اس لیے اردو غزل کمزور ہوئی ہے۔