نئی دہلی: وزارت ثقافت کے تعاون سے امرت مہوتسو کے تحت آج ایک کل ہند سیمینار ”اردو ادب کے پچہتر سال“ کے عنوان سے منعقد کیا گیا۔
شمیم طارق نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ غالب کے خطوط کی سلاست اور نفاست رشید احمد صدیقی، شبلی نعمانی، سردار علی جعفری اور ظ انصاری کے یہاں نظر آتی ہے۔ مگر بعد میں یہ روایت مزاحیہ اور غیر مزاحیہ نثر میں تقسیم ہوگئی۔ بعض مزاحیہ نثر مضحکہ خیز نثر کہے جانے کی مستحق ہے۔
پچہتر سال میں اردو میں ویدک ادب پر لکھا گیا۔ جاں نثار اختر نے اپنشدوں کو سامنے رکھ ”آدمی کا گیت“ لکھا ہے۔ جینت پرمار نے دلت ادب پر لکھا۔ آدی واسی علاقوں تک اردو کی وہ رسائی نہیں ہوئی جو ہونا چاہیے تھی۔ گوپی چند نارنگ نے مطالعہ لسانیات کو اردو تنقید کا جز بنایا۔ میر انیس اور علامہ اقبال کے کلام کا لسانیاتی جائزہ پیش کیا۔
شمیم طارق نے بنارس ہندویونیورسٹی کے شعبہ اردو اور ہندی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک سیمینار کا خصوصی ذکر کیا جو اردو اور ہندی کے ساجھی وراثت کے موضوع پر منعقد ہوا تھا۔ نکڑ ناٹک کی روایت قائم ہوئی اور اس پر کتابیں بھی لکھی گئیں۔ثقافتی مطالعہ کا رجحان بڑھا۔ ترجمہ کے ضمن میں ظ انصاری کے روسی زبان سے اردو میں بہترین تراجم سے پچہتر سال میں اردو کا دامن وسیع ہوا۔
افتتاحی اجلاس میں ڈاکٹر نفیس بانو نے پچہتر سال میں اردو غزل کے عنوان سے مقالہ پڑھا۔ صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ اردو میں فارسی روایات کا گہرا اثر ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر جی آر کنول نے کہا کہ پچہتر سال میں اردو تعلیم کا نظام بدتر ہوا ہے۔ اس دوران لسانی مطالعہ، ادب کا مارکسی مطالعہ، جدیدت کی تحریک کے تحت ادب تخلیق ہوا۔ دوسرے اجلاس میں پروفیسر قاضی جمال حسین نے ”اردو نظم جدیدیت کے بعد“ کے عنوان سے مقالہ پڑھا۔
انھوں نے کہا کہ غالب کلاسیکل شاعری کا آخری اور جدید شاعری کا پہلا شاعر تھا۔ منشور بنانے سے زندگی کا رویہ تبدیل نہیں ہوتا۔ ترقی پسندی سے طرز احساس اور عصری حسیت بدل گئی۔ پچاس سال میں نظموں میں تبدیلی آئی، طرز احساس بدل گیا۔ ساٹھ ستر سال میں نظریے بدل جاتے ہیں۔
ڈاکٹر نگار عظیم نے اردو افسانے میں تانیثیت میں کہا کہ عورت کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے استحصال کی راہیں بھی ہموار ہوئیں۔ نعیمہ جعفری نے اپنے مقالے میں اردو ناول کا ارتقا کا منظر نامہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پچہتر سال میں جو اردو ناول لکھے گئے وہ قابل اطمینان اور قابل فخر ہیں۔
ڈاکٹر شاداب تبسم نے جاوید احمد کا مقالہ پچہپتر سال میں اردو صحافت پڑھ کر سنایا۔ خالد علوی نے پچہتر سال میں غالب تنقید پر بولتے ہوئے کہا کہ مغلوں کی زندگی بہت مہذب اور شائستہ نہیں تھی۔ انھوں نے یاس یگانہ چنگیزی کی کتاب غالب شکن کا ذکر کیا۔ غالب پر لکھی گئی دوسری کتابوں نیر مسعود، خورشید الاسلام اور نارنگ صاحب کی غالب سے متعلق کتابوں پر گفتگو کی۔
پروفیسر عبدالحق نے اپنی تقریر میں کہا کہ غالب کے فارسی کلام میں بڑی رنگینی ہے اور فارسی میں غالب نے کئی نعت لکھی ہے۔ خالد محمود نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ایک وسیع موضوع کو چار گھنٹوں میں مقالہ نگار حضرات نے بیان کیا۔ اس میں غیر افسانوی نثر کا ذکر ہونا چا ہییے۔ پروفیسر قاضی افضال حسین نے اپنی صدارتی تقریر میں مقالہ نگاروں کی ستائش کی اکیڈمی کے صدر ڈاکٹر جی آر کنول نے سامعین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مقالہ طویل لکھے جائیں لیکن اس کی تلخیص بھی تیار کرلی جائے۔ (یو این آئی)