سری نگر: جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں 24 سیٹوں پر 18 ستمبر کو ووٹنگ ہو گی۔ اس مرحلے میں 219 امیدوار میدان میں ہیں۔ پہلے مرحلے میں نو خواتین امیدوار بھی مقابلہ کر رہی ہیں، جو کافی سرخیوں میں ہیں۔ ان خواتین امیدواروں کا پس منظر مختلف ہے۔ سیاسی تجربہ کاروں سے لے کر نئے چہرے بھی شامل ہیں۔ روایتی طور پر مردوں کی بالادستی والے میدان میں صنفی تنوع کی طرف ایک اہم تبدیلی آئی ہے۔ آئیے ان خاص خواتین کے بارے میں جانتے ہیں۔
گلشن اختر
اننت ناگ ویسٹ سیٹ سے آزاد امیدوار 60 سالہ گلشن اختر ایک ریٹائرڈ سرکاری ٹیچر ہیں۔ وہ اکنامکس اور انگریزی میں پوسٹ گریجویٹ ہونے کے ساتھ ساتھ بی ایڈ بھی ہیں۔ انہوں نے صرف 3 لاکھ روپے بینک ڈپازٹس کے طور پر ظاہر کیا ہے اور ان کے پاس کوئی اور اہم اثاثہ نہیں ہے۔
ان کی سیاست سماجی انصاف سے وابستگی اور پارٹی سیاست کے اثر و رسوخ کے برعکس ہے۔ گلشن آزاد امیدوار کی حیثیت سے اسمبلی میں پہنچ کر عوام کی آواز بننا چاہتی ہیں۔ انہوں نے 2024 کا لوک سبھا الیکشن بھی لڑا لیکن انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
التجا مفتی
سری گفوارہ بجبہاڑہ سے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی امیدوار 37 سالہ التجا مفتی کا تعلق جموں و کشمیر کے ایک ممتاز سیاسی خاندان سے ہے۔ ان کی والدہ محبوبہ مفتی اس وقت پی ڈی پی کی صدر ہیں اور اس سے قبل ریاست جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ تھیں۔
التجا مفتی، جنہوں نے یونیورسٹی آف واروک لندن سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی ہے کا دعویٰ ہے کہ وہ مقامی مسائل کی گہری سمجھ رکھتی ہیں اور عالمی منظر نامے کو بھی اچھی طرح سمجھتی ہیں۔ التجا کی امیدواری مفتی خاندان کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھانے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ انہیں سیاسی سوجھ بوجھ کیلئے نانا مفتی محمد سعید نے اپنے دفتر میں کام کرنے کا موقعہ دیا تھا۔
ان کے اثاثوں میں 3 لاکھ روپے نقد اور 25 لاکھ روپے کے سونے کے زیورات شامل ہیں۔ اپنی بے باک طبیعت کے لیے جانی جانے والی التجا جموں و کشمیر کی سیاست میں خود کو ایک جدید اور ترقی پسند آواز کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔ ان کے سیاسی میدان میں آنے پر سب کی نظریں ہیں۔
افروزہ بانو
37 سالہ افروزہ بانو کولگام سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ افروزہ، جن کا زمینی سطح کی سیاست سے گہرا تعلق ہے، وہ بلاک ڈیولپمنٹ کونسل (بی ڈی سی) کی سابق چیئرپرسن ہیں۔ 10ویں پاس بانو لوگوں کے مسائل حل کرنے اور مقامی ترقی کے لیے لگن کے لیے جانی جاتی ہیں۔
ان کے پاس معمولی اثاثے ہیں جن میں 50,000 روپے نقد، 1 لاکھ روپے کے سونے کے زیورات اور 6 لاکھ روپے کی کار شامل ہے۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں ترقی، صحت اور تعلیم پر زور دے رہی ہیں۔ ان کے شوہر ریاض احمد شاہ اپنی خاندانی جائیداد سے الیکشن میں ان کی حمایت کر رہے ہیں۔
سکینہ مسعود ایتو
52 سالہ سکینہ مسعود ایتو ایک تجربہ کار سیاست دان اور ڈی ایچ پورہ سے نیشنل کانفرنس (این سی) کی امیدوار ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے سابق رہنما ولی محمد ایتو کی بیٹی سکینہ نے 1994 میں اپنے والد کے قتل کے بعد سیاست میں آنے کے لیے میڈیکل کالج چھوڑ دیا۔ وہ ایم ایل اے، ایم ایل سی اور وزیر رہ چکی ہیں۔ انکے والد کو عسکریت پسندوں نے جموں میں ایک مسجد کے احاطے میں ہلاک کیا تھا۔
سکینہ نے ایک پرعزم رہنما کے طور پر لوگوں میں اپنا امیج بنایا ہے۔ ان کے اثاثوں میں 1.2 کروڑ روپے کی غیر منقولہ جائیداد، 54 لاکھ روپے کا سونا اور 40 لاکھ روپے سے زیادہ کے بینک ڈپازٹس شامل ہیں۔ سکینہ کی انتخابی مہم اپنے والد کی میراث کو جاری رکھنے پر مبنی ہے۔ وہ نوجوانوں کی بے روزگاری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے مسائل پر بھی زور دے رہی ہے۔ سکینہ ایتو غیر شادی شدہ ہیں۔ جن پی ڈی پی بھاجپا کی مخلوط حکومت معرض وجود میں آئی تھی تو انہیں سرینگر میں سرکاری رہائش گاہ سے بیدخل کیا گیا جسے انہوں نے سیاسی انتقام گیری سے تعبیر کیا تھا۔
ڈیزی رینہ
56 سالہ ڈیزی رینا ریپبلک پارٹی آف انڈیا (آر پی آئی) کے ٹکٹ پر پلوامہ ضلع کی راج پورہ سیٹ سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ رینا گورنمنٹ ویمنس کالج اننت ناگ سے گریجویٹ ہیں، اس سیٹ سے سب سے امیر امیدوار ہیں۔ اپنے انتخابی حلف نامے میں انہوں نے 2.3 کروڑ روپے کی رہائشی جائیداد اور ایک کروڑ روپے کے سونے کے زیورات کا تزکرہ کیا ہے۔