اردو

urdu

ETV Bharat / jammu-and-kashmir

لداخ کے باشندے اسمبلی کی بحالی کے لیے پر امید - LADAKH DEMANDS STATEHOOD

عمر عبداللہ کی حلف برداری کے بعد لداخ میں اسمبلی کی بحالی، چھٹے شیڈول میں شمولیت کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

ladakh
لیہہ ٹاؤن (ETV Bharat)

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 16, 2024, 8:16 PM IST

لیہہ (لداخ) :جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری کو اسمبلی واپس ملنے کے بعد عمر عبداللہ نے بدھ کے روز وزیر اعلیٰ کا حلف لیا۔ تاہم لداخ سال 2019 میں یونین ٹیریٹری بنائے جانے کے بعد سے اب تک اسمبلی سے محروم ہے۔ لداخ کے باشندے سیاسی نمائندگی اور فیصلہ سازی کے اختیارات نہ ہونے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

لداخ کے لوگ ریاستی حیثیت اور ایک منتخب قانون ساز اسمبلی کے قیام کا مطالبہ جاری رکھے ہوئے ہیں، امید ہے کہ ان کے مطالبے پر جلد غور کیا جائے گا۔ لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل (ایل اے ایچ ڈی سی)، لیہہ کے سابق چیف ایگزیکٹو کونسلر، رگزین اسپالبار نے کہا: ’’یہ ہم سب کے لیے خوشی کا موقع ہے کہ جموں و کشمیر میں جمہوریت بحال ہو چکی ہے۔ آج کا دن لداخی عوام کے لیے مبارک کا ایک موقع ہے کہ جموں و کشمیر نے اپنی حکومت بنا لی ہے۔ کئی برسوں سے جموں و کشمیر میں انتخابات نہیں ہوئے تھے۔ اب جبکہ جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری کے طور پر اسمبلی کے ساتھ بحال ہوا ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ جلد ہی لداخ کی مکمل ریاستی حیثیت بحال ہوگی ترقی واپس پٹری پر لوٹ آئے گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا: ’’دوسری طرف ہم ایک یانین ٹیریٹری ہیں اور اسمبلی کے بغیر ہیں۔ چھٹے شیڈول میں شمولیت ہمارا ایک اہم مطالبہ ہے، جس کے لیے ہم متحرک ہیں۔ (مرکزی) حکومت نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ اس میں جلد ہی عملدرآمد ہوگا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا: ’’حال ہی میں پانچ نئے اضلاع کا اعلان کیا گیا ہے، جس کے بعد کل اضلاع کی تعداد سات ہو گئی ہے۔ یہ فیصلہ ایک تاریخی سنگ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ایک بار جب لداخ چھٹے شیڈول میں شامل ہو جائے گا، تو گورنر کے پاس خود مختار ترقیاتی کونسلز بنانے کا اختیار ہوگا اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ کونسلز ساتوں اضلاع میں قائم ہوں گی۔ ہم پر امید ہیں کہ اس شمولیت کے ساتھ ہی لداخ میں حقیقی ترقی اور ایک مکمل جمہوری نظام کا قیام ہوگا۔‘‘

کرگل سے تعلق رکھنے والے تاجر حاجی غلام عباس کا کہنا ہے: ’’ہم اب یو ٹی بن چکے ہیں اور ہمارا جموں و کشمیر سے علیحدگی کے بعد سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ اگرچہ جموں و کشمیر بھی یو ٹی ہے لیکن وہاں اسمبلی کے اختیارات ہیں اور ہمیں اسمبلی کے بغیر رکھا گیا ہے۔ ہم نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے (نہ گھر کا نہ گھاٹ کا)۔ دونوں کو اسمبلی کے ساتھ یو ٹی کا درجہ دیا جانا چاہیے، ہمیں اسمبلی کے بغیر یو ٹی کیوں دی گئی؟ یہ ہمارا حق ہے۔ ہم یو ٹی کے ساتھ اسمبلی چاہتے ہیں تاکہ کوئی ہماری بات سن سکے۔ فی الحال لداخ بیوروکریٹس کے ہاتھ میں ہے اور وہی سب کچھ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس دو ہل کونسلز ہیں، ایک لیہہ میں اور دوسری کرگل میں، دونوں کو بے اختیار کر دیا گیا ہے۔ ہم اب معذور ہو چکے ہیں۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ جس طرح جموں و کشمیر کو اسمبلی دی گئی ہے، ہمیں بھی عوامی نمائندگی دی جائے۔‘‘

جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے ایڈیشنل جنرل سیکریٹری اور سابق وزیر، قمر علی آخون نے کہا: ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ نیشنل کانفرنس نے یہ اسمبلی انتخابات بھاری اکثریت سے جیتے ہیں۔ اس کامیابی کا مظاہرہ پارٹی کے جموں و کشمیر کے لیے کیے گئے اچھے کام کی عکاسی ہے۔ عوام نے این سی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ پارٹی مستقبل میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ نیشنل کانفرنس نے عوام سے جو بھی وعدے کیے ہیں انہیں ہمیشہ پورا کیا ہے، اور اسی لیے عوام نے ہمیں منتخب کیا ہے۔ ہم آج اس کا نتیجہ دیکھ سکتے ہیں۔‘‘

اگرچہ نیشنل کانفرنس کرگل میں مضبوط موجودگی اور نمائندگی رکھتی ہے تاہم اس کی لیہ میں زیادہ حمایت نہیں ہے۔ قمر علی آخون نے مزید کہا: ’’کرگل کے لوگوں نے ہمیشہ نیشنل کانفرنس کا ساتھ دیا ہے کیونکہ ہم نے ہمیشہ ان کی بھلائی کے لیے کام کیا ہے۔ ہم لیہہ میں پارٹی کی موجودگی کو مضبوط کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔‘‘

جموں و کشمیر کے نئے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو مبارکباد دیتے مقامی کانگریس رہنما تسیرنگ نامگیل نے کہا: ’’افسوس کی بات یہ ہے کہ (لداخ میں) عوامی نمائندگی نہیں رہی، ہمارے پاس چار ایم ایل ایز اور دو ایم ایل سیز ہوتے تھے۔ شروع سے ہی ہم اسمبلی کے ساتھ یو ٹی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، جس پر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ہمارے لیہہ اور کرگل کے رہنما، چاہے وہ لیہہ اپیکس باڈی ہو یا کے ڈی اے، اسمبلی کے ساتھ یو ٹی کا درجہ یا چھٹے شیڈول میں شمولیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جموں و کشمیر میں وزیر اعلیٰ، اسمبلی اور وزراء ہوں گے جو عوام کے ذریعے چلائے جائیں گے جبکہ لداخ میں ایسا نہیں ہوگا۔ ہم بھی قانون ساز اختیارات چاہتے ہیں اور حکومت کو ہماری چار نکاتی ایجنڈے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ہمارے لوگ ابھی بھی بھوک ہڑتال پر ہیں اور دہلی تک تقریباً ایک ماہ تک ہزاروں کلومیٹر پیدل چل کر پہنچے ہیں۔ اس وقت، سونم وانگچک کی قیادت میں 20-25 لوگ دہلی میں بھوک ہڑتال پر ہیں۔ ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے جب حکومت ہماری بات نہیں سنتی اور میں حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ ہماری بات سنی جائے اور جلد ہی لداخ میں جمہوری نظام قائم کیا جائے۔ اس کے علاوہ حکومت کو جلد ہی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنی چاہیے۔ جب تک مذاکرات نہیں ہوں گے، کوئی حل نہیں نکلے گا۔‘‘

بی جے پی کے ترجمان پی ٹی کنزنگ نے کہا: ’’جموں و کشمیر میں 10 سال بعد انتخابات ہوئے۔ فی الحال، جموں و کشمیر بھی لداخ کی طرح یو ٹی ہے۔ ان کی مانگ ہے کہ مکمل ریاستی حیثیت بحال کی جائے۔ اگرچہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کتنا وقت لگے گا لیکن جلد یا دیر سویرمکمل ریاستی حیثیت بحال ہوگی۔ فی الحال جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی سے مکمل طور پر معمول کی حالت بحال نہیں ہوئی۔ لداخ کے بارے میں، 5 اگست 2019 کی تقسیم کے بعد ہمیں بغیر اسمبلی کے یو ٹی کا درجہ دیا گیا۔ فی الحال، مرکز کی سطح پر دونوں ہل کونسلز کو مضبوط بنانے پر گفتگو جاری ہے۔ تو دیر سویر، چند برسوں میں لداخ کو بھی غالباً اسمبلی کے ساتھ یو ٹی کا درجہ دیا جائے گا۔‘‘

یہ بھی پڑھیں:لداخ کے لیے ریاستی درجہ، کرگل میں احتجاجی ریلی

ABOUT THE AUTHOR

...view details