پریاگ راج: الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ غیر قانونی تشخیصی مراکز چلانا عام لوگوں کی زندگیوں سے کھیلواڑ ہے۔ اس سے نہ صرف ہزاروں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑتی ہیں بلکہ ان کے ساتھ ناانصافی بھی ہوتی ہے۔ عدالت نے جعلی سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر ڈائیگناسٹک سنٹر چلانے والے ملزمان کے کردار کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے اور ملزمان کو دیا گیا عبوری تحفظ واپس لے لیا۔
گورکھپور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو فوری طور پر معاملے کی تحقیقات کو آگے بڑھانے کی ہدایت دی ہے۔ اگلی تاریخ پر تحقیقات کی سٹیٹس رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ حکم جسٹس اشونی کمار مشرا اور جسٹس ڈاکٹر گوتم چودھری کی ڈویژن بنچ نے رام پانڈے کی عرضی پر سماعت کے دوران دیا۔
17 مئی 2024 کو ڈاکٹر راہل نائک نے درخواست گزار رام پانڈے کے خلاف گورکھپور کے گلریہا تھانے میں دھوکہ دہی کے الزام میں مقدمہ درج کیاتھا ۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ڈگری کے جعلی سرٹیفکیٹ بنا کر کئی اضلاع میں غیر قانونی تشخیصی مراکز چلا رہے ہیں۔ درخواست گزار نے گرفتاری سے بچنے کی استدعا کی۔ اس پر عدالت نے ان کی گرفتاری کا عبوری حکم دیا تھا۔
مزید پڑھیں: میرٹھ میں نرس کا اغوا کر نے عصمت دری
عدالت کے کہنے پر پولیس سپرنٹنڈنٹ نے ایک حلف نامہ جمع کرایا جس میں کہا گیا کہ پہلی نظر میں درخواست گزار نے تشخیصی مرکز کھولنے کے لیے شکایت کنندہ ڈاکٹر کی ڈگری، پین کارڈ اور تصویر کا غلط استعمال کیا ہے۔ اسی وقت شکایت کنندہ کے وکیلوں ابھودیا مہروترا اور اشونی کمار سریواستو نے ایک ضمنی حلف نامہ دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نے کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی سے ریڈیولوجی میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ جبکہ ملزم درخواست گزار کی جانب سے جمع کرائی گئی ڈگری کے مطابق ڈاکٹر نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی ہے۔ عدالت نے کیس میں درخواست گزار کے حوالے سے دیا گیا سابقہ حکم واپس لے لیا۔