سرینگر: جوگی لنکر کے تاریخی علاقے میں کافی تعداد میں ہندوؤں کی آبادی رہائش پزیر تھی تاہم 1989 میں کشمیر میں مسلح شورش کے نتینے میں ہزاروں ہندوؤں نے نقل مکانی کرکے وادی سے باہر رہائش اختیار کی۔
وادی میں سلامتی صورتحال میں بہتری کے بعد اب کئی کشمیری ہندو اپنے آبائی علاقوں کا رخ کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا ایک وفد حالیہ دنوں جوگی لنکر علاقے میں وارد ہوا اور وہاں ایک مقامی مندر اور اس سے منسلک جائیدادوں کا جائزہ لیا۔ کمیٹی کی جائزہ رپورٹ کے پس منظر میں ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین کو جوگیسشواری مندر ٹریسٹ کے صدر ڈاکٹر مہیش کول نے بتایا کہ وہاں دیگر دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں موجود ہیں تاہم ایک لنگ کو وہاں سے غائب پایا گیا جو کہ حیران کن ہے جبکہ مندر کی گھنٹی بھی وہاں موجود نہیں ہے۔دوسری جانب مندر مکمل طور پر خستہ حالی کی داستان پیش کر رہا ہے اور مندر سے منسلک دیگر جائیدادیں بھی ناگفتہ حالت میں پائی گئی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ کم و بیش چار دہائیوں تک مندر اور اس سے منسلک اراضی اور جائیدادیں مقفل رہنے کے باوجود اپنی اصل حالت میں موجود ہیں اوران پر کسی قسم کے تجاوزات نہیں ہیں۔ جوگی لنگر کی اکثر ہندو آبادی نے اپنی جائیدادیں فروخت کی ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ جائیدادیں کشمیری پنڈتوں کی جائیدادوں کی خرید و فروخت سے متعلق ایکٹ مجریہ 1997 کے تحت فروخت ہوئی ہیں۔ اس ایکٹ کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جوگیشور مندر اپنی تاریخی اہمیت کا حامل مندر ہے۔ رعناواری کے جوگی لنکر گھاٹ پر واقع جوگیشور مندر کو کشمیری میں "لوکٹ" مندر بھی کہا جاتا ہے۔ نوے کی دہائی سے قبل اس مندر میں رعناواری میں مقیم کشمیری پنڈت عبادت کرتے تھے اور 1990 میں مسلح شورش کے بعد کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی کے بعد یہ مندر بند پڑا ہے۔ایسے میں اب 35 برس بعد اس مندر کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی نے اس مندر کو کھولا ۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں جوگیشوری مندر پر شری امرناتھ جی یاترا سمیت کشمیر کے دیگر مقدس مقامات کی زیارت کرنے والے یاتری یہاں حاضری دیتے تھے۔