حیدرآباد: گزشتہ چھ مہینوں سے دنیا فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کا وہ نظارہ دیکھ رہی ہے جو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا۔ غزہ کو اسرائیلی افواج نے کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے۔ غزہ کے میدان قبرستانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں ایسے فلسطینی ہیں جنھیں کفن اور دو گز زمین بھی نصیب نہیں ہوئی ہے، ابھی تک ان کی لاشیں عمارتوں کے ملبے کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ اسرائیلی بمباری میں تقریباً 33 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ کم از کم 75 ہزار فلسطینی زخمی ہیں وہیں فلسطین کے بیشتر علاقہ میں غذائی قلت کا سامنا ہے اور شمالی غزہ قحط کے قریب ہے۔ صیہونی افواج نے غزہ کی ناکہ بندی کر دی ہے، اقوام متحدہ اور امدادی ایجنسیاں خوراک کے متلاشی فلسطینیوں تک کھانا نہیں پہنچا پارہی ہیں۔ ان حالات میں غزہ کے فلسطینیوں کا رمضان بھی گزر رہا ہے۔
اسرائیل کی اسی جارحیت کے خلاف رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن فلسطینیوں کے حقوق کے لیے دنیا بھر میں آواز اٹھائی بلند کی جاتی ہے۔ مظاہرے اور دعائیہ اجتماع کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اپنی اپنی حکومتوں کو مسلمان میمورنڈم پیش کرتے ہیں جس میں فلسطینیوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
یہ تقریب پہلی بار 1979 میں ایران میں انقلاب ایران کے فوراً بعد منعقد ہوئی تھی۔ یہ دن جزوی طور پر اسرائیل کے یوم یروشلم کی مخالفت میں منایا جاتا ہے، جسے اسرائیلی مئی 1968 سے منا رہے ہیں اور اسے 1998 میں کنیسٹ نے قومی تعطیل کا اعلان کیا تھا۔ مشرقی یروشلم پر اسرائیلی قبضے کے خلاف آج یوم قدس کے موقع پر مسلم دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی غیر مسلم کمیونٹیز میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔