غزہ:امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے مجوزہ معاہدے کے فریم ورک پر بنیادی طور پر متفق ہو گیا ہے اور اب یہ حماس پر منحصر ہے کہ وہ اس پر رضامندی ظاہر کرتا ہے یا نہیں۔ معاہدے تک پہنچنے کے لیے آج بروز اتوار مصر میں ایک بار پھر مذاکرات شروع ہو رہے ہیں جہاں حماس کا وفد پہنچ چکا ہے۔
بین الاقوامی ثالث قطر، مصر اور امریکہ 10 مارچ کے قریب مقدس مہینے رمضان کے شروع ہونے سے پہلے لڑائی کو روکنے کے لیے کئی ہفتوں سے کام کر رہے ہیں۔ ممکنہ معاہدے کے بعد شمالی غزہ میں بھوک سے تڑپ رہے لاکھوں فلسطینیوں تک امداد پہنچ سکے گی جو بھوک مری کی وجہ سے زندگی اور موت کے بیچ میں جھوجھ رہے ہیں۔
امریکی اہلکار نے کہا کہ اسرائیل نے اس فریم ورک کو "کم و بیش قبول" کر لیا ہے، جس میں چھ ہفتے کی جنگ بندی کے ساتھ ساتھ حماس کی طرف طے شدہ تعداد میں یرغمالیوں کی رہائی بھی شامل ہے۔ ان یرغمالیوں میں بیمار، زخمی، بوڑھے اور خواتین شامل ہوں گی۔ "فی الوقت، گیند حماس کے پالے میں ہے اور ہم جنگ بندی کروالے کے لیے جتنی کوشش سے کر سکتے ہیں اسے جاری رکھے ہوئے ہیں،" اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط یہ بات کہی۔
اسرائیل کے عہدیداروں نے فوری طور پر اس خبر پر تبصرہ کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ مصر کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا کہ ثالثی کر رہے مصر اور قطر کو اتوار کو قاہرہ میں ہو رہے مذاکرات کے دوران حماس کی جانب سے جواب ملنے کی توقع ہے۔ اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ اسے عوامی طور پر مذاکرات پر بات کرنے کا اختیار نہیں تھا۔
اسرائیل شرائط مان لے تو دن بھر میں جنگ بندی ممکن: حماس