غزہ کی پٹی: غزہ کی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں ایک اسپتال کے باہر رات بھر جاری رہے اسرائیلی حملوں میں پانچ فلسطینی صحافی جاں بحق ہو گئے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ تمام عسکریت پسند تھے جو صحافیوں کا روپ دھار رہے تھے۔
یہ حملہ وسطی غزہ میں تعمیر شدہ نصرت پناہ گزین کیمپ میں العودہ اسپتال کے باہر ایک کار کو نشانہ بنا کر کیا گیا۔ یہ صحافی مقامی خبر رساں ادارے القدس ٹوڈے کے لیے کام کر رہے تھے، جو مسلح اسلامی جہاد گروپ سے وابستہ ایک ٹیلی ویژن چینل ہے۔
اسلامی جہاد حماس کا ایک چھوٹا اور قریبی اتحادی ہے۔ اس پر 7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل میں ہونے والے حملے میں حصہ لینے کا الزام ہے۔ اسرائیل کی فوج نے ان میں سے چار افراد کی شناخت جنگی پروپیگنڈا کرنے والوں کے طور پر کی ہے اور کہا ہے کہ انٹیلی جنس کے علاوہ اسے جو اسلامی جہاد کے کارندوں کی فہرست ملی ہے اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ پانچوں افراد اس گروپ سے وابستہ تھے۔
حماس، اسلامی جہاد اور دیگر فلسطینی گروپ اپنے مسلح ونگز کے علاوہ سیاسی، میڈیا اور خیراتی کام بھی چلاتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی فوٹیج میں ایک وین کے جلے ہوئے خول کو دکھایا گیا، جس کے پچھلے دروازوں پر پریس کے نشانات دکھائی دے رہے تھے۔ مہلوک صحافیوں کے جنازے میں سسکتے جوانوں نے شرکت کی۔ لاشیں کفنوں میں لپٹی ہوئی تھیں، ان پر نیلی پریس واسکٹ اوڑھائی ہوئی تھیں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز سے اب تک 130 سے زائد فلسطینی صحافی مارے جا چکے ہیں۔ اسرائیل نے سوائے فوجی ایمبیڈز کے غیر ملکی صحافیوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے۔
اسرائیل نے پین عرب الجزیرہ نیٹ ورک پر پابندی عائد کر دی ہے اور غزہ کے چھ صحافیوں پر عسکریت پسند ہونے کا الزام لگایا ہے۔ قطر میں قائم براڈکاسٹر اسرائیل کے ان الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔ الجزیرہ نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جنگی کوریج کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ واضح رہے الجزیرہ نے اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے شہریوں کی ہلاکتوں پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: