لندن: برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے دفتر نے جمعہ کو ایک بیان جاری کیا ہے۔ بیان کے مطابق برطانیہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کے خلاف وارنٹ گرفتاری کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی درخواست میں مداخلت نہیں کرے گا۔
یہ اعلان سابق وزیر اعظم رشی سنک کے اعلان کردہ منصوبوں کے الٹ ہے۔ حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ، "یہ پچھلی حکومت کی طرف سے ایک تجویز تھی جو الیکشن سے پہلے پیش نہیں کی گئی تھی، اور میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ حکومت ہمارے دیرینہ موقف کے مطابق عمل نہیں کرے گی کہ یہ عدالت کو فیصلہ کرنا ہے۔"
واضح رہے اس ماہ کے شروع میں وزیراعظم اسٹارمر کی لیبر پارٹی نے رشی سنک کی کنزرویٹو کو پارلیمانی انتخابات میں زبردست شکست سے دو چار کیا تھا۔
آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان نے نتن یاہو، گیلنٹ اور حماس کے تین رہنماؤں یحییٰ سنوار، محمد ضیف اور اسماعیل ہنیہ پر غزہ کی پٹی اور اسرائیل میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام لگایا ہے۔
نتن یاہو اور دیگر اسرائیلی رہنماؤں نے اس اقدام کو شرمناک اور سام دشمنی قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی پراسیکیوٹر کو تنقید کا نشانہ بنایا اور حماس کے خلاف اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی تھی اور ایسا ہی برطانیہ کے سابق وزہراعظم رشی سنک نے کیا تھا۔
آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان نے مئی میں غزہ میں اسرائیل کی جنگ پر نتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے وارنٹ طلب کیے ہیں۔ برطانوی حکومت کا تازہ بیان اسرائیل کے لیے علامتی دھچکا ہے جس نے غزہ کی جنگ پر اسرائیل کی تنہائی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ آئی سی سی کے وارنٹ گرفتاری کا زیادہ کچھ اثر ہونے والا نہیں ہے۔ کیونکہ اسرائیل عدالت کا رکن نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر وارنٹ جاری کیے جاتے ہیں، نتن یاہو اور گیلنٹ کو فوری طور پر قانونی چارہ جوئی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن گرفتاری کا خطرہ ان کے سفر کو مشکل بنا سکتا ہے۔
آئی سی سی نے حکومت کو چیلنج دائر کرنے کے لیے جمعے کی آخری تاریخ مقرر کی تھی۔