اردو

urdu

اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ سائفر عمران کی تحویل میں تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ - PAKISTAN CIPHER CASE

By PTI

Published : May 1, 2024, 1:49 PM IST

سائفر کیس میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ہائی کورٹ) کی ڈویژن بنچ، جس نے منگل کو 71 سالہ خان اور ان کے اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کی دوبارہ سماعت شروع کی، پوچھا کہ کیا اس کا کوئی ریکارڈ موجود ہے جس سے معلوم ہو کہ سابق وزیر اعظم نے سائفر کا استعمال کیا۔

کیا سائفر عمران کی تحویل میں تھا
کیا سائفر عمران کی تحویل میں تھا

اسلام آباد:سائفر کیس میں ایک نیا موڑ آیا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے کہ جیل میں بند سابق وزیراعظم عمران خان نے خفیہ سفارتی کیبل اپنے پاس رکھی اور یہ ان کے قبضے سے غائب ہوگئی۔

چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ہائی کورٹ) کی ڈویژن بنچ، جس نے منگل کو 71 سالہ خان اور ان کے اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کی دوبارہ سماعت شروع کی، سوال کیا کہ کیا پراسیکیوٹنگ ایجنسی کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ جیل میں بند سابق وزیر اعظم نے یہ سائفر کا استعمال کیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ سائفر کیس میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جس میں سابق وزیر اعظم نے کاغذ کا ایک ٹکڑا دکھایا تھا، مبینہ طور پر کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک سفارتی سائفر کی کاپی تھی، جو اسلام آباد میں ایک عوامی ریلی میں انہیں نے دکھایا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ انکی حکومت کو ایک غیر ملکی طاقت کے ساتھ ملکر گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کو ثبوت بنا کر پیش کیا گیا اور امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو کا حوالہ دیا گیا، جو سائفر تنازعہ کے مرکز میں رہے ہیں۔

خان نے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اپریل 2022 میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے سے صرف دو ہفتے قبل سائفر پیپر کو نشان زد کیا تھا۔

قبل ازیں، وزارت خارجہ کی ایک رپورٹ جو دفاعی وکیل بیرسٹر سلمان صفدر کی جانب سے آئی ایچ کورٹ میں پیش کی گئی تھی، اس میں سائفر کی تقسیم کی تفصیلات موجود تھیں، جس میں کہا گیا تھا کہ سائفر کے تقریباً ہر وصول کنندہ، بشمول سابق آرمی چیف اور چیف جسٹس کو موصول ہوا تھا۔ مقدمہ درج ہونے سے پہلے وہی خفیہ دستاویز واپس کر دی گئی۔

اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے وزارت خارجہ سے پی ایم آفس تک سائفر موومنٹ کی وضاحت کی تو جسٹس فاروق نے سوال کیا کہ کیا سائفر موومنٹ کا ایسا کوئی ریکارڈ موجود ہے کہ اسے پرنسپل سیکریٹری نے وزیراعظم کے حوالے کیا؟ حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ اعظم خان، جو کہ اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری تھے ، نے عدالت کے سامنے گواہی دی تھی کہ سائفر، پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو دیا گیا تھا مگر پھر اسے کبھی واپس نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ یہ سنی سنائی بات ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ عمران خان نے سیکرٹری سے سائفر واپس کرنے کو کہا ہو مگر اس نے واپس نہ کیا ہو۔

تاہم، شاہ نے کہا کہ عدالت کے پاس یہ یقین کرنے کی کافی وجہ ہے کہ سابق وزیر اعظم نے اس سائفر کو حاصل کیا اور اس کا مطالعہ کیا جس کی بنیاد پر انہوں نے عوامی تقریریں کیں اور یہاں تک کہ امریکہ کو ڈیمارچ (پالیسی میں تبدیلی) بھیجا تھا۔ لیکن ہم کیسے کہے سکتے ہیں کہ اسے واپس نہیں کیا گیا تھا؟ چیف جسٹس نے سوال کیا۔ شاہ نے جواب دیا کہ کیس کے گواہوں نے حلف پر کہا ہے کہ خان نے کبھی بھی خفیہ دستاویز واپس نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک عوامی تقریر اور ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو کے دوران خان نے اعتراف کیا کہ سائفر ان کے قبضے میں تھا۔

جسٹس اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ سیاستدان ایسے بیانات مجمع کو بھانپنے کے لیے دیتے ہیں۔ انہوں نے صوبائی وکیل سے کہا کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ اعظم خان کے مبینہ اغوا سے متعلق درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کے ساتھ کیا ہوا اور وکیل کو ہدایت کی کہ وہ 2 مئی تک ایف آئی آر میں چالان یا ڈسچارج رپورٹ جمع کرائیں۔

دریں اثناء خاور فرید مانیکا, بشریٰ بی بی کے سابق شوہر، نے عدت کیس میں خان اور ان کی اہلیہ کی سزا کے خلاف اپیل کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ فرید مانیکا نے سیشن جج شاہ رخ ارجمند سے درخواست کی کہ وہ خود کو اس کیس سے الگ رکھیں، فرید مانیکا نے یہ الزام لگایا ہے کی وہ پاکستان تحریکِ انصاف پارٹی اور اس کے بانی عمران خان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔

:یہ بھی پڑھیں

ABOUT THE AUTHOR

...view details