یروشلم: اسرائیل کی غزہ میں جارحیت نویں مہینے میں داخل ہونے جا رہی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کو غزہ جنگ کی وجہ سے بیشتر ممالک کی مخالفت اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہی نہیں اسرائیلی عوام بھی نتن یاہو حکومت سے فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نتن یاہو کے خلاف اسرائیل میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ جنگ کو طول دینے اور جنگ سے متعلق نتن یاہو کی ہٹ دھرمی سے تنگ آکر جنگی کابینہ کے ایک اہم نے رکن نتن یاہو کی مخالفت کرتے ہوئے جنگی کابینہ سے استعفیٰ بھی دے دیا۔
نتن یاہو کو ایسے حالات میں اپنے اہم اتحادی امریکہ کی تنقیدوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ غزہ میں آٹھ مہینوں سے جاری جنگ اور اس میں ہوئی شہری ہلاکتوں سے خطے میں وسیع پیمانے پر بدامنی پھیل سکتی ہے۔ اس کے باجود اسرائیل امریکہ کے سر درد کو بڑھانے کے لیے تیار پوری طرح نظر آ رہا ہے۔
اسرائیل نے اب حزب کے خلاف بھی جلد ہی باقاعدہ جنگ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے لبنان میں حزب اللہ پر حملے کے منصوبہ کو حتمی شکل دے دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ فوج کے مطابق اس نے لبنان میں حملے کے آپریشنل منصوبوں کی منظوری اور توثیق کر دی ہے۔ غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کے آغاز کے بعد سے ہی عرب دنیا کی سب سے اہم نیم فوجی طاقت حزب اللہ اسرائیل کے سرحدی علاقوں میں آبادی اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا آیا ہے۔ اسرائیل کے اس اعلان کے ساتھ ہی اب حزب اللہ اور صیہونی فوج ایک مکمل جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
حالانکہ اسرائیلی فوج نے یہ نہیں بتایا ہے کہ اس کے فوجی آپریشن میں کیا کیا شامل ہے۔ لیکن اسرائیلی فوج کے ان منصوبوں کی اب بھی اسرائیلی لیڈروں کی جانب سے جانچ پڑتال ضروری ہے۔ آئی ڈی ایف کے اس اعلان سے یہ تو ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ حزب اللہ کو سبق سکھانا چاہتی ہے، فوج یہ ظاہر کر رہی ہے کہ وہ لبنان میں حزب اللہ کے خلاف سخت کارروائی کے لیے تیار ہے۔
غزہ جنگ میں اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی امریکہ پہلے ہی جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دے کر بین الاقوامی سطح پر تنقیدوں کا سامنا کر رہا ہے ، یہی نہیں امریکی صدر جو بائیڈن کو خود اپنے ہی ملک میں عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب امریکہ فی الحال کسی نئے محاذ پر جنگ سے بچنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی انتظامیہ سرحد پار تنازعہ کا سفارتی حل نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے سینئر مشیر اموس ہوچس ٹین اس وقت بیروت پہنچ چکے ہیں اور اس کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کے طور پر حکام سے ملاقات کر رہے ہیں۔ امریکہ جانتا ہے کہ اگر اسرائیل اور لبنان میں جنگ شروع ہوتی ہے تو دو بھاری ہتھیاروں سے لیس دشمن آپس میں ٹکرائیں گے جو دونوں ملکوں کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ حزب اللہ کے راکٹ اور ہتھیار حماس سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔