حیدرآباد: سنہ1949 سے لے کر اب تک غزہ تقریباً 15 چھوٹی بڑی جنگیں جھیل چکا ہے۔ غزہ کی پٹی میں فلسطین اور اسرائیل کے بیچ لڑی گئی حالیہ جنگ سات اکتوبر 2023 کو مزاحمتی تنظیموں کے حملے کے بعد شروع ہوئی اور 24 نومبر 2023 کو عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا، جس کے تحت کچھ یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی ترسیل عمل میں آئی۔ اس کے بعد یہ جنگ دوبارہ شروع ہو گئی۔ بہر حال 15 جنوری 2025 کو اسرائیل اور حماس نے ایک بار پھر جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کیا جو کہ تاحال جاری ہے۔
امریکہ کی غزہ پر قبضے کی خواہش
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے پانچ فروری 2025 کو ملاقات کی۔ اس کے بعد دونوں رہنماؤں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے غزہ کی پٹی پر امریکی قبضے کی بات کہہ کر سنسنی پھیلا دی۔ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ سے فلسطینی کو کہیں اور منتقل کرنے کے بعد امریکہ پٹی کو اپنے قبضہ لے لے گا اور اسے ترقی دے کر عالمی سیاحتی مقام میں تبدیل کرے گا جہاں دوسرے ممالک کے لوگ بھی آکر رہ سکیں گے۔ اسرائیلی نیتن یاہو نے ٹرمپ کے بیان کی حمایت کی۔ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد غزہ اور اسرائیل اور فلسطین کا تنازع ایک بار پھر زیر بحث آگیا۔ آئیے اس موقعے پر اسرائیل اور فلسطین تنازع کے بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں۔
غزہ اور فلسطین کی قدیم تاریخ پر ایک نظر
غزہ پٹی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ آثار و روایات کے مطابق غزہ کو تقریبا پانچ ہزار سال قبلِ مسیح کنعان قبیلے نے آباد کیا تھا۔ اس کے جنوب مغرب میں مصر اور صحرائے سینا ہے جب کہ شمالی مشرق میں اسرائیل واقع ہے۔ وہیں اس ساحلی پٹی کا مغربی حصہ بحیرہ روم سے ملتا ہے۔
غزہ کی پٹی اپنی طویل تاریخ میں کئی بار اجڑی اور آباد ہوئی، حتیٰ کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کا نام بھی بدلتا رہا۔ اس پٹی کو کبھی ہزانی تو کبھی اورشليم کے نام سے جانا گیا۔ موجودہ وقت میں اسرائیلی اور عرب اسے غازا اور غزہ کے نام سے پکارتے ہیں۔
قدیم تاریخ میں غزہ بنی اسرائیل کا حصہ رہا۔ اس کے بعد یہ آشوریہ کی حکومت کے ماتحت رہا۔ بعد ازاں یہاں پر مرحلہ وار طریقے سے فارس، سکندر اعظم، رومیوں نے حکومت کی۔
جس دور میں حضرت محمدﷺ کی بعثت ہوئی اور مدینہ ہجرت کے بعد اسلامی دور کا آغاز ہوا، اس وقت غزہ رومیوں کے ہی زیر اقتدار تھا۔
پہلے اسلامی خلیفہ حضرت ابوبکر رضی اللہ کے زمانے میں حضرت عمرو بن العاص کی قیادت میں اسلامی لشکر روم کی فوج کو شکست سے دوچار کیا۔ اس کے بعد اسلامی فوج نے قدس شہر کا محاصرہ کرلیا۔ اسلامی کیلنڈر کے مطابق پندرہ ہجری میں دوسرے خلیفہ حضرت عمر کے دور میں پندرہ ہجری میں مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق بیت القدس فتح ہوا اور اسی کے ساتھ غزہ بھی اسلامی حکومت کے تسلط میں آ گیا۔ اس کے بعد فلسطین کی پوری سرزمین اگلے پانچ سو سال تک اسلامی خلافت کے ماتحت رہی۔ جب اسلامی حکومت کمزور پڑنے لگی تو 1099ء میں فلسطین پر صلیبیوں نے قبضہ کر لیا اور یہ قبضہ تقریباً 80 سال تک برقرار رہا۔
1187 میں صلاح الدین ایوبی کے دور میں حطین کی جنگ کے بعد غزہ سمیت پورے فلسطین پر دوبارہ مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن 1233ء میں صلیبی افواج نے ایک بار پھر القدس شہر پر قبضہ کرلیا، مگر صرف گیارہ سال بعد ہی صالح نجم الدین ایوب نے 1244 میں ایک بار پھر اس خطے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔
1259ء میں عین جالوت کی جنگ بھی غزہ میں ہی لڑی گئی تھی جس میں اسلامی لشکر نے منگولوں کو بری طرح شکست دی۔ 1517 تک فلسطین پر ممالیک کی حکومت رہی اور 1616ء میں عثمانی خلیفہ سلیم الاول نے فلسطین پر اپنی حکمرانی قائم کرلی۔ اس کے بعد بیچ میں 1799ء میں نپولین کے حملے کو درکنار کر دیا جائے تو پہلی عالمی جنگ تک غزہ عثمانیہ سلطنت کے ماتحت ہی رہا۔
اس کے بعد پہلی عالمی جنگ کے دوران سات نومبر 1917ء کو برطانوی فوج نے دوبار کی ناکامی کے بعد بالآخر تیسری بار غزہ پر قبضہ کرلیا اور اسی کے ساتھ پورا فلسطین برطانیہ کے قبضے میں آگیا۔
غزہ کی جدید تاریخ
دراصل اسرائیل اور فلسطین تنازع کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس وقت یہاں یہودی بہت چھوٹی اقلیت تھے جب کہ عرب نسل کے فلسطینیوں کی آبادی 90 فیصد سے زیادہ تھی۔ مگر برطانوی تسلط کے دور میں 20ویں صدی میں یورپ میں ظلم و ستم سے بھاگنے والے یہودیوں نے اس فلسطین پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس وقت فلسطین کی عرب آبادی نے اس کوشش کے خلاف احتجاج کیا اور کہا کہ یہ زمین ان کی ہے اور وہ یہاں نسل در نسل آباد ہیں۔
اسرائیل کے قیام کی بنیاد
دو نومبر 1917 کو اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے برطانوی یہودی کمیونٹی کی ایک اہم شخصیت لیونل والٹر روتھشیلڈ کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں انہوں نے "فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام" اور "اس مقصد کے حصول" میں برطانوی حکومت کی طرف سے سہولت فراہم کرنے کا عہد کیا۔ اس خط کو بالفور اعلامیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہی اعلامیہ فلسطین کے موجودہ تنازع کی جڑ بنا اور آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی رسمی شروعات اسی واقعے سے ہوئی۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ برطانیہ نے صیہونی تحریک سے ایک ایسے خطے میں یہودی ملک کا وعدہ کر لیا جہاں 90 فیصد سے زیادہ آبادی فلسطینی عربوں کی تھی۔
برطانوی مینڈیٹ اور آبادیاتی تبدیلیاں
1923 میں ایک برطانوی مینڈیٹ بنایا گیا جو 1948 تک جاری رہا۔ اس عرصے کے دوران انگریزوں نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کی فلسطین کی طرف نقل مکانی کی سہولت فراہم کی۔ بہت سے یہودی یورپ میں نازیوں کے عتاب سے بھاگ رہے تھے، انہیں بھی منصوبہ بند طریقے سے فلسطین کی طرف ہانک دیا گیا۔ فلسطینیوں کو اپنے ملک کی بدلتی ہوئی آبادی اور برطانیہ کی جانب سے ان کی زمین پر ضبط کرنے اور اسے یہودی تارکین وطن کے حوالے کرنے پر شدید تشویش اور ناراضگی تھی۔
1930 کی دہائی کے اہم واقعات
فلسطین میں بڑھتی ہوئی کشیدگی بالآخر عرب بغاوت (انتفاضہ/انقلاب) کا باعث بنی، جو 1936 سے 1939 تک جاری رہی۔
اپریل 1936 میں نو تشکیل شدہ عرب نیشنل کمیٹی نے یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔
چھ ماہ کی طویل ہڑتال کو انگریزوں نے بے دردی سے کچل دیا۔
فلسطینیوں کے انتفاضہ/انتفادہ کا دوسرا مرحلہ 1937 کے آخر میں شروع ہوا اور اس کی قیادت فلسطینی کسان مزاحمتی تحریک نے کی۔
برطانوی فوج اور استعمار کو نشانہ بنایا۔
1939 میں برطانیہ نے فلسطین میں 30,000 فوجی بھیجے۔
فلسطینی دیہاتوں پر فضائی بمباری کی گئی، کرفیو لگایا گیا اور فلسطینیوں کے مکانات مسمار کر دیے گئے۔
ان تین سال کی بغاوت کے دوران 5000 فلسطینی مارے گئے، 15 سے 20 ہزار زخمی ہوئے اور 5600 قید ہوئے۔
اقوام متحدہ کا دو ریاستی حل کا منصوبہ
1947 تک یہودیوں کی آبادی بڑھ کر فلسطین کا 33 فیصد ہو گئی تھی لیکن ان کے پاس صرف چھ فیصد زمین تھی۔ اقوام متحدہ نے قرارداد 181 منظور کی جس میں پورے فلسطین خطے کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ فلسطینیوں نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا کیونکہ اس منصوبے میں فلسطین کا تقریباً 56 فیصد حصہ یہودی ریاست کے لیے مختص کر دیا گیا تھا جب کہ آبادی فلسطینیوں کی زیادہ تھی۔ اس میں زیادہ تر زرخیز ساحلی علاقے یہودی ریاست کو دے دیے گئے تھے جب کہ اس وقت تک فلسطینی غیر منقسم فلسطین کے 94 فیصد کے مالک تھے اور ان کی آبادی کا 67 فیصد تھی۔
1948 میں فلسطینیوں کی نسلی صفایا
14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ کی میعاد ختم ہونے سے قبل ہی مسلح صیہونی تنظیموں نے یہودی ریاست کی سرحدوں کو وسعت دینے کے لیے فلسطینی قصبوں اور دیہاتوں کو تباہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر حملے شروع کر دیے۔
اپریل 1948 میں یروشلم کے نواح میں واقع گاؤں دیر یاسین میں 100 سے زائد فلسطینی مرد، خواتین اور بچوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
1947 سے 1949 تک، 500 سے زیادہ فلسطینی دیہات، قصبے اور شہر تباہ کر دیے گئے جنہیں فلسطینی "نکبہ" یا "تباہی/قیامت صغریٰ" کہتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق مغرب کی حمایت یافتہ مسلح یہودی تنظیموں کے حملوں میں 15000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں درجنوں قتل عام شامل ہیں۔
ان حملوں کے نتیجے میں مسلح یہودیوں نے فلسطین کے 78 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا۔
باقی 22 فیصد فسلطین اب مقبوضہ مغربی کنارے اور محصور غزہ کی پٹی کے درمیان تقسیم ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 750,000 فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔
آج ان کی اولادیں فلسطین اور پڑوسی ممالک لبنان، شام، اردن اور مصر میں پناہ گزینوں کے طور پر مقیم ہیں۔
بالآخر 14 مئی 1948 کو 'اسرائیل' ریاست کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔
اگلے دن پہلی عرب اسرائیل جنگ شروع ہو گئی۔
یہ لڑائی جنوری 1949 میں اسرائیل اور مصر، لبنان، اردن اور شام کے درمیان جنگ بندی کے بعد ختم ہوئی۔
دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق پر زور دیا گیا۔
نکبہ (فلسطنیوں کی تباہی) کے بعد کیا ہوا؟
اسرائیل کی نو زائدہ ریاست میں 150,000 سے بھی کم فلسطینی رہ گئے اور تقریباً 20 سال تک انہیں فوجی قبضے میں رہنا پڑا۔ اس کے بعد انہیں اسرائیلی شہریت دے دی گئی۔ مصر نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا اور 1950 میں اردن نے مغربی کنارے پر اپنی انتظامی حکمرانی قائم کر لی۔ 1964 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) قائم ہوئی اور ایک سال بعد الفتح سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی۔
سنہ 1967 کی چھ روزہ جنگ
پانچ جون 1967 کو اسرائیل نے عرب افواج کے اتحاد کے خلاف چھ روزہ جنگ کے دوران غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، شام کی گولان کی پہاڑیوں اور مصری جزیرہ نما سینائی سمیت باقی ماندہ تاریخی فلسطین پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کے بعد بہت سے فلسطینیوں کو دوسری بار جبری نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا جسے نکسہ کہا گیا جس کا عربی میں مطلب 'دھچکا' ہے۔
یوم کپور جنگ
ایک اور عرب اسرائیل جنگ، جسے مختلف طور پر یوم کِپور جنگ اور اکتوبر جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس وقت لڑی جاتی ہے جب مصر اور شام نے اسرائیل کے زیر قبضہ جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اسی بیچ جاری سرد جنگ کے دوران کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب سوویت یونین نے مصر اور شام کی مدد کی اور امریکہ اسرائیل کی مدد کرتا رہا۔ پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم نے اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک پر تیل کی پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیں۔ یہ کشیدگی امریکہ اور سوویت یونین کے بیچ مذاکرات کے بعد ختم ہوئی۔
کیمپ ڈیوڈ معاہدہ
یکم ستمبر 1978 کو اسرائیل اور مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کیے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدے کی بنیاد رکھی گئی۔ اس معاہدے نے اسرائیل اور مصر کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ دیگر فریقوں کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے تصفیے کے لیے بات چیت کرنے کا بھی پابند کیا۔ 26 مارچ 1979، اسرائیل جزیرہ نما سینائی سے دستبردار ہو گیا۔ اس کے تحت مصر اور اسرائیل نے ایک امن معاہدے پر دستخط کیے، جو اسرائیل اور اس کے ایک عرب پڑوسی کے درمیان پہلا معاہدہ تھا۔
حماس کی تشکیل