یروشلم:اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی ثالثی کی بین الاقوامی کوششیں نئی رفتار پکڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اسرائیلی رہنماؤں کے ساتھ ایک سینئر امریکی ایلچی کی مثبت سمت میں بات چیت جاری ہے اور دیگر ثالثوں نے حوصلہ افزا علامات کی اطلاع دی ہے۔
پیشرفت کے نئے آثار اس ہفتے کے آخر میں پیرس میں متوقع سربراہی اجلاس سے پہلے سامنے آئے ہیں، جہاں ثالث ایک نئی تجویز پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امریکہ، مصر اور قطر کئی ہفتوں سے ایک ایسا فارمولہ تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو غزہ میں اسرائیل کی تباہ کن کارروائی کو روک سکے۔ رمضان کا مقدس مہینہ جیسے جیسے قریب آرہا ہے ثالث ممالک پر دباؤ مزید بڑھتا جا رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطی کے ایلچی بریٹ میک گرک نے اسرائیلی رہنماؤں اور حماس کے زیر حراست اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ سے دن بھر بات چیت کی۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ، "ابتدائی اشارے ہمیں بریٹ سے مل رہے ہیں کہ یہ بات چیت اچھی طرح سے چل رہی ہے۔"
جنگ بندی کی کوششوں میں شامل ایک مغربی سفارت کار نے کہا کہ دونوں فریق توقف چاہتے ہیں۔ "ہم نے اپنے شراکت داروں سے جو سنا ہے وہ یہ ہے کہ وہ رعایتیں دینے کے لیے تیار ہیں،" انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بند دروازے کی سفارت کاری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ "حالات دونوں فریقین پر دباؤ ڈال رہا ہیں۔"
- نیتن یاہو قیدیوں کے سلسلے میں بات چیت کے لیے مذاکرات کاروں کو پیرس بھیجنے پر رضامند
امریکی نیوز ویب سائٹ ایکشیس نے ایک اسرائیلی اہلکار اور ایک باخبر ذریعے کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے غزہ کی پٹی میں قیدیوں کے بارے میں بات چیت کے لیے مذاکرات کاروں کو پیرس بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
العربیہ کے مطابق ویب سائٹ نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے دباؤ اور اسرائیلی جنگی کونسل کے بعض ارکان، فوج اور انٹیلی جنس کے اندرونی دباؤ کے بعد کیا گیا ہے۔