حیدرآباد: لوک سبھا انتخابات 2024 کی انتخابات میں مسلم ریزرویشن کے بہانے بی جے پی نے ایک ایسے مدعے کو زندہ رکھا جس نے اسے 2014 اور 2019 میں اقتدار تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ حالانکہ ایک زمانے میں مسلم ایشوز پر کھل کر اپنا موقف رکھنے والی کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے مسلم مخالف بیانات اور فیصلوں کی محتاط انداز میں مخالفت کی۔ حکومت اور اپوزیشن کے مسلمانوں کے تئیں اس ماحول میں مسلم ایشوز تو دب جاتے ہیں لیکن مسلم ووٹ کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔
ملی جھلی آبادی والے اس ملک میں لوک سبھا کی 48 نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد سے زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں ہندو آبادی 80 تو مسلم آبادی صرف 14 فیصد ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ آسام اور مغربی بنگال میں سب سے زیادہ مسلم ووٹ ووٹر ہیں۔ کیرالہ، یوپی اور بہار میں بھی مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے۔ مسلم ووٹ حاصل کرنے یا یوں کہیں کہ اس پر ضرب لگانے کے فارمولے پر سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے فارمولے ترتیب دیئے ہیں۔ بی جے پی بھی اس میں پیچھے نہیں ہے۔ آسام اور بنگال میں بی جے پی کو زیادہ سیٹیں جیتنے کے لیے مسلم ووٹروں کا بھی سہارا چاہیئے۔
- گزشتہ 3 لوک سبھا انتخابات میں مسلم ووٹوں پر ایک نظر
سی ایس ڈی ایس لوک نیتی کے اعداد و شمار کے مطابق، 2009 کے انتخابات میں بی جے پی کو 4 فیصد مسلم ووٹ ملے تھے۔ کانگریس کو 38 فیصد مسلم ووٹ ملے۔ 58 فیصد مسلم ووٹروں نے دوسری پارٹیوں کو ووٹ دیا۔ اعداد وشمار کے مطابق 2014 کے انتخابی اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو بی جے پی کو 8 فیصد مسلم ووٹ ملے تھے۔ کانگریس کو 38فیصد مسلم ووٹ ملے اور دیگر پارٹیوں کو 54فیصد مسلم ووٹ ملے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو 8 فیصد ووٹ ملے۔ کانگریس کو 33 فیصد ووٹ ملے اور دیگر کو 59 فیصد ووٹ ملے۔
- مسلم ووٹ کتنا بڑا فیکٹر ہے؟