علی گڑھ: سنبھل، باغپت، بدایوں، فیروز آباد اور بریلی کے بعد اب علی گڑھ کی تاریخی جامع مسجد کے نیچے بھی مندر کے دعوے پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ مدعی پنڈت کیشو دیو گوتم کا دعویٰ ہے کہ 300 سال پرانی جامع مسجد کی جگہ پر پہلے شیو مندر تھا۔
اس حوالے سے انہوں نے سول جج کی عدالت میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔ کیس کی سماعت 15 فروری کو ہونی ہے۔ عرضی داخل ہونے کے بعد علی گڑھ کی جامع مسجد موضوع بحث ہے۔ ایسے میں تاریخ داں پروفیسر محمد وسیم راجہ اور مقامی لوگوں نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں جامع مسجد کی تاریخ کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔
مسجد میں تین دروازے اور 17 گنبد
کونسلر مشرف مہجر حسین نے بتایا کہ مسجد کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک ٹیلے پر بنائی گئی ہے۔ بلندی پر تعمیر ہونے کی وجہ سے اس مسجد کو علی گڑھ شہر کے ہر کونے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ 300 سال قبل تعمیر ہونے والی اس مسجد کے تین دروازے اور 17 گنبد ہیں۔ مسجد کے ہر دروازے پر دو گنبد ہیں۔ اس میں بیک وقت تقریباً 5 ہزار لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین کے لیے یہاں نماز پڑھنے کا الگ انتظام کیا گیا ہے۔ سفید گنبدوں والی اس خوبصورت مسجد میں اسلامی فن و ثقافت کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔
![علی گڑھ جامع مسجد کا ایک دروازہ](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/12-01-2025/23308468_thumbna.jpg)
گنبدوں اور میناروں پر چھ کوئنٹل سونا نصب
کونسلر کے مطابق علی گڑھ جامع مسجد کے گنبد اور مینار سونے سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق اتنا سونا ایشیا کی کسی اور مسجد میں استعمال نہیں ہوا۔ مرکزی گنبد پر تقریباً آٹھ سے دس فٹ اونچے تین مینار بنے ہیں۔ تینوں گنبدوں کے پاس بنے ایک ایک گنبد پر چھوٹے چھوٹے تین مینار ہیں۔ مسجد کے دروازے اور چاروں کونوں پر بھی چھوٹے چھوٹے مینار ہیں۔ سبھی گنبدوں اور میناروں پر خالص سونا جڑا ہوا ہے۔ گنبد پر بھی کئی کوئنٹل سونا جڑا گیا ہے۔ حالانکہ کتنا سونا لگا ہے، اس کی صحیح مقدار کسی کو معلوم نہیں ہے۔ اس سونے کی حفاظت کے لیے کوئی بھی گارڈ تعینات نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس جامع مسجد میں تقریباً چھ کوئنٹل سونا لگا ہوا ہے۔
![علی گڑھ جامع مسجد کے سنہرے گنبد اور منارے](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/12-01-2025/23308468_thumbnai.jpg)
سنہ 1857 کی جنگ آزادی میں شہید علمائے دین کی قبریں
سنہ 1857 کی جنگ آزادی کی یادیں بھی اس جامع مسجد سے وابستہ ہیں۔ یہ ملک کی پہلی مسجد بتائی جاتی ہے جہاں 1857 کے انقلاب کے شہداء کی 73 قبریں بنائی گئی ہیں۔ اسے گنج شہیداں یعنی شہداء کی بستی بھی کہا جاتا ہے۔ تین صدیوں پرانی اس مسجد میں کئی نسلوں نے نمازیں ادا کی ہیں۔ اس وقت آٹھویں نسل مسجد میں نماز پڑھ رہی ہے۔
مہشور شو 'کون بنے گا کروڑ پتی' میں مسجد سے متعلق سوال
اداکار امیتابھ بچن نے 'کون بنے گا کروڑ پتی' شو میں بھی اس مسجد سے متعلق سوال پوچھا تھا۔ سوال یہ تھا کہ بھارت کے کس مذہبی مقام پر سب سے زیادہ سونا استعمال کیا گیا ہے۔ آپشنز میں تروپتی مندر، گولڈن ٹیمپل، علی گڑھ کی جامع مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر شامل تھے۔ اس کا جواب علی گڑھ کی جامع مسجد بتایا گیا۔ اسے نہ صرف ہندوستان بلکہ ایشیاء کی سب سے زیادہ سونے سے جڑی گئی مسجد مانا جاتا ہے۔
![علی گڑھ کی تاریخی جامع مسجد کا دلکش منظر](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/12-01-2025/23308468_thu.jpg)
پانچ بادشاہوں نے مسجد کی تزئین و آرائش کی
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر محمد وسیم راجہ نے علی گڑھ اور علی گڑھ کی تاریخی جامع مسجد کی تاریخ سے متعلق 1740 میں راجے محمد کے ذریعہ لکھی گئی کتاب "اکبر الجمال" کے حوالہ سے کئی اہم باتیں سامنے رکھیں۔ انہوں نے بتایا کہ علی گڑھ کی تاریخی جامع مسجد مکمل طور پر اسلامی طرز تعمیر ہے۔ اس کی تعمیر و تجدید اور تزئین و آرائش قطب الدین ایبک سے لے کر پانچ شہنشاہوں نے کروائی تھی۔ یہ مسجد 18ویں صدی میں 1728 میں بن کر مکمل ہوئی۔
اس علاقے کو قطب الدین ایبک نے فتح کیا تھا
پروفیسر راجہ نے بتایا کہ سلطنت کے زمانے میں اس علاقے کا نام کول تھا جسے قطب الدین ایبک نے جیتا تھا۔ اپنی فتح کی خوشی میں قطب الدین ایبک نے اپرکوٹ کے علاقے میں سب سے اونچے مقام پر ایک مسجد تعمیر کروائی۔ ابتدائی مسجد چھوٹی تھی جس کی وجہ سے پانچ بادشاہوں نے اپنے اپنے دور میں اس مسجد تعمیر نو اور تزئین و آرائش کروائی۔ قطب الدین ایبک، التمش، نصرالدین محمود اور ابراہیم لودی کے دور میں بھی اس مسجد پر کام کیا گیا۔
موجودہ مسجد کی تعمیر چار سال میں مکمل ہوئی
پروفیسر محمد وسیم نے کہا کہ جامع مسجد کی ابتدا اور بنیاد قطب الدین ایبک کے دور میں رکھی گئی تھی۔ لیکن اسے آخری اور موجودہ شکل کول کے گورنر ثابت خان نے مغل بادشاہ محمد شاہ کے دور میں دی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر جدید 1724 میں شروع ہوئی اور 1728 میں مکمل ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس جامع مسجد سے 1857 کے انقلاب کی یادیں بھی وابستہ ہیں۔ یہ ملک کی پہلی مسجد بتائی جاتی ہے جہاں 1857 کے انقلاب کے شہداء کی 73 قبریں بنائی گئی ہیں۔ اسے گنج شہیداں یعنی شہداء کی بستی بھی کہا جاتا ہے۔
کتاب 'اخبار الجمال' میں مندر کا کوئی ذکر نہیں
انہوں نے کہا کہ اے ایم یو کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر جمال محمد صدیقی نے بھی علی گڑھ کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی ہے۔ "علی گڑھ ڈسٹرکٹ: ایک تاریخی سروے، قدیم زمانے سے 1803 عیسوی تک" اس میں انہوں نے کتاب "اخبار الجمال" کا حوالہ دیا ہے جو کہ راجے محمد نے 1740 میں لکھی تھی۔ اس کتاب میں جامع مسجد کے مقام پر ہندو، جین یا بدھ یا دیگر کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کا ذکر نہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس اس حوالے سے کچھ لکھا ہو یا کچھ دستیاب ہو تو وہ دکھائے، پھر "اخبار الجمال" میں جو لکھا ہے اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
![علی گڑھ کی تاریخی جامع مسجد](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/12-01-2025/23308468_thumb.jpg)
'مسجد کے مندر کی جگہ پر ہونے کا دعویٰ غلط'
پروفیسر راجہ نے کہا کہ جس نے بھی علی گڑھ جامع مسجد کی جگہ جین یا ہندو مندر ہونے کی درخواست دائر کی ہے، اس کا دعویٰ یا دائر کیا گیا آر ٹی آئی جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔ اس کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ علی گڑھ کی جامع مسجد مکمل اسلامی فن تعمیر کا شاہکار ہے، جس کی تعمیر و تجدید و تزئین و آرائش قطب الدین ایبک سے شروع ہو کر مغل بادشاہ محمد شاہ تک پانچ بادشاہوں نے کی ہے۔
'ہندو مسلم اتحاد پر حملہ'
مقامی باشندوں حاجی محمد سمیع اللہ، مخدوم احمد، محمد اسلم اور کونسلر مشرف مہجر حسین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے تنازعات کو علی گڑھ کا ماحول خراب کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو اس طرح کے تنازعات کو جنم دیتے رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں 2014 میں آزادی ملی۔ وہ ملک کے ہندو مسلم اتحاد کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ سستی شہرت کے لیے ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں۔
![ہندو مدعی پنڈت کیشو دیو گوتم اور علی گڑھ جامع مسجد](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/12-01-2025/23308468_thumbn.jpg)
پنڈت کیشو دیو گوتم کا دعویٰ
جامع مسجد کے خلاف کیس دائر کرنے والے آر ٹی آئی کارکن اور اینٹی کرپشن آرمی کے لیڈر پنڈت کیشو دیو گوتم کا دعویٰ ہے کہ اپر کوٹ علاقے میں ہندو بادشاہوں کا ایک بڑا قلعہ ہوا کرتا تھا۔ قلعہ کی جگہ پر جعلی دستاویزات کی بنیاد پر جامع مسجد قائم کی گئی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آر ٹی آئی کے ذریعے محکمہ آثار قدیمہ اور میونسپل کارپوریشن سے اس سلسلے میں جانکاری حاصل کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس اس جگہ پر پہلے بدھ اسٹوپا، جین مندر یا شیو مندر تھا۔ کیشو دیو نے آر ٹی آئی کے ذریعے میونسپل کارپوریشن سے پوچھا تھا کہ جامع مسجد کس کی زمین پر بنائی گئی ہے۔ یہ کب تعمیر ہوئی اور مسجد کا مالک کون ہے؟ میونسپل کارپوریشن نے جواب دیا کہ مسجد سرکاری زمین پر تعمیر کی گئی ہے اور اس کی تعمیر کے حوالے سے کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ کارپوریشن نے یہ بھی واضح کیا کہ مسجد کے مالکانہ حقوق کسی بھی فرد کے پاس نہیں ہیں۔