اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

اندور: کربلا کے پوسٹر کو 'غزوۂ ہند' بتا کر بی جے پی اور ہندو تنظیموں کا ہنگامہ

بی جے پی اور ہندو تنظیموں نے ایک تین ماہ پرانے کربلا پوسٹر پر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ تنازع کے بعد پوسٹر ہٹا دیا گیا۔

اندورمیں کربلا کے پوسٹر کو غزوہ ہند کا پوسٹر سمجھ کرہنگامہ کیا گیا
اندورمیں کربلا کے پوسٹر کو غزوہ ہند کا پوسٹر سمجھ کرہنگامہ کیا گیا (ETV BHARAT)

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 5, 2024, 8:02 AM IST

اندور: شہر کے چھتری پورہ تھانہ علاقے میں ایک پوسٹر پر تنازع ہوگیا۔ بی جے پی اور مختلف ہندو تنظیموں نے سوشل میڈیا پر پوسٹر شیئر کرکے اپنے احتجاج کیا۔ دراصل یہ پوسٹر تقریباً تین ماہ قبل محرم کے موقع پر لگایا گیا تھا۔ جس پر اب تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ بی جے پی ایم ایل اے مالنی گوڑ کے بیٹے ایکلویہ گوڑ نے فیس بک پر پوسٹر شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’’غزوہ ہند کا پوسٹر اندور کے کاگدی پورہ علاقے میں لگایا گیا تھا۔ دہشت کی تصویر کشی کرنے والا یہ پوسٹر انتظامیہ اور لا اینڈ آرڈر کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اس پوسٹر کی اجازت کس بنیاد پر دی گئی ہے؟ انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اس کا فوری نوٹس لیا جائے اور لگانے والے کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

ایم ایل اے کے بیٹے نے پوسٹر شیئر کرکے احتجاج کا اظہار کیا۔

اس طرح سے ایکلویہ گوڑ نام کے ایک ہندو کارکن نے فیس بک پر اسی طرح کی باتیں لکھ کر اس پوسٹر کو شیئر کیا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر اس پوسٹر کے خلاف متعدد لوگ بغیر جانے سمجھے مخالفت کرنے لگے۔ اسی دوران وشو ہندو پریشد کے رہنما سنتوش شرما نے ایک عوامی بیان دیتے ہوئے کہا کہ 'غزوہ ہند کیا ہے؟ ہندؤں کی جگہ ہندوستان ہے۔ آج ہندوستان دنیا میں مضبوطی سے کھڑا ہے۔ آج جب ایک طاقتور ملک امریکہ میں انتخابات ہوتے ہیں تو اس کے لیڈر ہندؤں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں اور دیوالی مناتے ہیں۔ تو اس سے بڑا پیغام دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ ہندوستان ایک طاقتور ملک بنتا جا رہا ہے اور آج یہ لوگ ہندوستان کی ترقی کو روکنے کے لیے انتشار کا ایسا ماحول بنا رہے ہیں۔'

جب اس پوسٹر پر تنازع بڑھا تو اسے لگانے والے اندور کے مقامی لوگ بھی وضاحت کے لیے سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پوسٹر ہمارے مذہب سے متعلق ہے۔ یہ واقعہ کربلا سے متعلق ہے اور اس غزہ ہند جیسی کوئی بات نہیں لکھی ہے، نہ ہی اس میں کسی تنظیم، کسی مذہب یا ملک کے خلاف کوئی بات درج ہے۔

اندور کے مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر سماج دشمن عناصر انتشار پھیلا رہے ہیں۔ ہم انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جو بھی سوشل میڈیا اکاؤنٹس یہ پوسٹر وائرل کر رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس پوسٹر کا غزوہ ہند سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ پوسٹر کربلا کا ہے اور یہ پوسٹر شیعہ برادری سے متعلق ہے۔ حالانکہ تنازع سے بچنے کے لیے اس پوسٹر کو ہٹا دیا گیا۔

مزید پڑھیں: ٹی ڈی پی لیڈر نواب جان کا دعویٰ، کہا، سی ایم نائیڈو مسلمانوں کے مفادات کے خلاف کسی بھی بل کی حمایت نہیں کریں گے

رضاکارانہ طور پر پوسٹر ہٹا دیا گیا

اس معاملے میں اندور کے اے سی پی ہیمنت چوہان کا کہنا ہے کہ ’’شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ ملنے آئے تھے اور انہوں نے پولیس کو پوسٹر کے بارے میں مکمل جانکاری دی۔ اس کے علاوہ شیعہ برادری کے لوگوں نے پولیس کو یقین دلایا تھا کہ یہ پوسٹر انٹرنیٹ سمیت دیگر جگہوں پر دستیاب ہے اور وہ اس پوسٹر کو عید سمیت دیگر پروگراموں میں استعمال کرتے ہیں۔ اس میں کسی کے خلاف کوئی بات نہیں ہے۔'' اسی کے ساتھ انہوں نے جانکاری دی کہ شیعہ برادری کے لوگوں نے رضاکارانہ طور پر اس پوسٹر کو ہٹا دیا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details