حیدرآباد: وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف ملک کی مسلم تنظیموں کی مہم تحریک کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ جے پی سی کو وقف ترمیمی بل کے خلاف کل (11 ستمبر تک 84 لاکھ ایک ہزار 563 آن لائن درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ 10 ستمبر تک جو مہم سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی اس نے گیارہ ستمبر کو مسلم تنظیموں کے حوصلے میں اضافہ کر دیا تھا۔ اب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعتہ علماء ہند کی جانب سے وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں جے پی سی کو ای میل اور واٹس ایپ کے ذریعہ آن لائن درخواستیں روانہ کرنے کی اس مہم سے کروڑوں لوگ جڑتے جا رہے ہیں اور اپنا احتجاج اور ناراضگی درج کرا رہے ہیں۔
وقف ترمیمی بل کے خلاف جاری مہم نے پکڑی رفتار، درخواستوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز (Grfx) گیارہ ستمبر کو اچانک وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں جے پی سی کو ملک بھر سے 30 لاکھ سے زائد درخواستیں روانہ کی گئی۔ 12 ستمبر تک یہ اعداد وشمار ایک کروڑ کا ہندسہ عبور کر چکا ہے۔ یعنی 12 ستمبر دوپہر تک درخواستوں کی تعداد ایک کروڑ 22 لاکھ 87 ہزار 536 ہو گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 30 اگست سے 12 ستمبر تک جے پی سی کو وقف ترمیمی بل کے خلاف جو درخواستیں موصول ہوئی ہیں ان میں
1- مہاراشٹر سے 20 لاکھ 47 ہزار 510 آن لائن درخواستیں
2- اتر پردیش سے 15 لاکھ 17 ہزار 300 آن لائن درخواستیں
3- کرناٹک سے 9 لاکھ 57 ہزار 702 آن لائن درخواستیں
4- گجرات سے 7 لاکھ 59 ہزار 404 آن لائن درخواستیں
5- تلنگانہ سے 9 لاکھ 42 ہزار 67 آن لائن درخواستیں
6- راجستھان سے 7 لاکھ 71 ہزار 463 آن لائن درخواستیں
7- تمل ناڈو سے 4 لاکھ 95 ہزار 263 آن لائن درخواستیں
8- دہلی سے 4 لاکھ 64 ہزار 17 آن لائن درخواستیں
9- مدھیہ پردیش سے 5 لاکھ 39 ہزار 782 آن لائن درخواستیں
10- بہار سے 5 لاکھ 97 ہزار 18 آن لائن درخواستیں
11- اور دیگر ریاستوں سے 15 لاکھ 32 ہزار 937 آن لائن درخواسیں موصول ہوئے ہیں۔
جس سے تیزی سے گزشتہ دو روز میں مسلمانان ہند نے جے پی سی کے روبرو وقف ترمیمی بل کے خلاف آن لائن احتجاج درج کرائی ہے اس سے مسلم تنظیموں کو امید ہے کہ درخواستوں کی تعداد کروڑوں میں پہنچ جائے گی۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اگر مسلمانان ہند اسی رفتار سے وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں آن لائن درخواستیں روانہ کریں گے تو اس مرکزی حکومت وقف ترمیمی بل سے متعلق سوچنے پر مجبور ہو جائے گی۔
علماء و دانشوروں کی جانب سے اپیل کی جارہی ہے کہ، مسلم تنظیموں کی ہدایت کے مطابق تیار کردہ فارمیٹ کے ذریعے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) کو اپنی رائے زیادہ سے زیادہ بھیجیں اوریہ واضح کردیں کہ موجودہ وقف قانون درست اور کافی ہے۔اس لئے اس میں ترمیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ وقف کے مقاصد کے لئے بڑی حد تک نقصان دہ ہے۔
مسلم دانشوروں کا ایسا خیال ہے کہ وقف ترمیمی بل کے خلاف جے پی سی کو روانہ کیے گئے آن لائن درخواستوں کی تعداد مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے کافی کم ہیں تاہم جس رفتار سے مہم آگے بڑھ رہی ہے اس کے مثبت نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔
مسلم تنظیموں، ملی قائدین اور علماء کرام کا موقف ہے کہ وقف ترمیمی بل کے قانون بننے کی صورت میں مرکزی حکومت کو ایسے اختیارات مل جائیں گے جن کی مدد سے وہ ملک بھر کی وقف املاک پر قبضہ کر سکتی ہے اور وقف کے اداروں کو ناکارہ کر سکتی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کا ماننا ہے کہ 'نئے بل میں کلکٹر کو بہت زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں، جب کہ اصولی طور پر کلکٹر جج نہیں بن سکتا۔' بورڈ کا مزید کہنا ہے کہ 'اس وقف ترمیمی بل کے ذریعہ حکومت وقف کے نظم و نسق کو اپنے ہاتھ میں لے کر ریاستی حکومتوں کو اس سے باہر کرنا چاہتی ہے۔
درخواست سے متعلق مسلمانوں کو کیا ہے تشویش؟
مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کو تشویش لاحق ہے کہ کیا وقف ترمیمی بل کے خلاف ایک جیسی رائے ہونے کے سبب اسے رَد کر دیا جائے گا۔ کیونکہ اس ضمن میں مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیۃ علماء یا دیگر تنظیموں کی جانب سے جوکیوآر کوڈ جاری کیا گیا ہے اس میں محض اسکین کرکے اسے جے پی سی کو روانہ کرنا ہے۔ اور اسی پر عمل کرتے ہوئے ای میل روانہ کیے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اس تشویش پر مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیتہ علماء ہند نے غور نہیں کیا ہے۔ ان کے مطابق وکلاء سے بات چیت اور مشورہ کرنے پر یہ واضح ہوا ہے کہ فارمیٹ اور مضمون یکساں رہنے سے کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ فارمیٹ اور مضمون بھلے ہی یکساں ہے لیکن اسے روانہ کرنے والے الگ الگ لوگ ہیں اور ان کے نمبرات اور ای میل آئی ڈی بھی مختلف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: