گجرات: سپریم کورٹ نے گجرات کے کھیڑا میں کچھ مسلم نوجوانوں کو سرعام ستون سے باندھ کر مارنے والے چار پولیس اہلکاروں کو 14 دن کی قید کے حکم پر فی الحال روک لگا دی ہے تاہم عدالت نے پولیس اہلکاروں کے اس طرز عمل کو ظالمانہ اور ناقابل قبول قرار دیا ہے ۔ پولیس نے یہ کاروائی اکتوبر 2022 میں گربا پروگرام پر مسلم کمیونٹی کے لوگوں کی طرف سے پتھراؤ کے بعد کی تھی۔
جسٹس بھوشن آر گوائی اور سندیپ مہتہ پر مشتمل سپریم کورٹ بنچ نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے نی صرف اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا بلکہ سپریم کورٹ کی 1997 کی ڈی کے باسو کیس کی ان واضح ہدایات کی بھی خلاف ورزی کی جس میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیز کو زیر حراست تشدد سے متعلق تنبیہہ کی گئی اور پولیس کیلئے واضح ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ گرفتاری یا نظر بندی کے دوران کن امورات کا خیال رکھے۔
بنچ نے پولیس اہلکاروں کی پیروی کرنے والے وکیل سدھارتھ دوے سے پوچھا کہ کیا انہیں قانونی اختیار ہے کہ وہ لوگوں کو کھمبے کے ساتھ باندھ کر سرعام پٹائی کریں۔ اور پھر اسکی ویڈیو بھی بنائیں۔ یہ کیسا ظلم ہے اور آپ اسکی ویڈیو بھی لے رہے ہیں۔
بنچ نے سدھارتھ دوے سے پوچھا کہ وہ توہین عدالت کیس میں کس بنیاد پر سزا کو کالعدم کرنے کی مانگ کررہے ہیں حالانکہ کیس کے حقائق پر کوئی تضاد نہیں ہے۔ دوے نے کہا کہ اپیل ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھاتی ہے کیونکہ ڈی کے باسو کیس میں اس واقعہ (یعنی کھمبے کے ساتھ باندھ کر سرعام پٹائی کرنا) کو حراستی تشدد کی ایک شکل قرار نہیں دیا گیا تھا۔ اس پر دو رکنی بنچ نے کہا کہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو قانون کے تحت لوگوں کو باندھنے اور مارنے کا اختیار ہے؟" بینچ نے حیرانگی سے دوے سے پوچھا کہ کیا اس طرز عمل کو صرف اس لیے جائز قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ 1997 کے فیصلے میں لاٹھیوں سے سرعام پیٹنے کے عمل کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
بنچ نے سندیپ دوے کو بتایا کہ ہائی کورٹ نے مزید کہا ہے کہ سرعام پٹائی کے علاوہ متاثرین کو 24 گھنٹے سے زیادہ غیر قانونی حراست میں رکھا گیا تھا۔
گجرات ہائی کورٹ نے اس معاملے میں پولیس اہلکاروں کو 14 دن قید کی سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف پولیس اہلکاروں نے سپریم کورٹ کی جانب رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ان کی اپیل سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سزا پر روک لگا دی ہے۔ تاہم ہائی کورٹ کے ججز نے پولیس کے رویے پر تنقید کی۔ پولیس اہلکار چاہتے ہیں کہ انکی قید کی سزا معاف کی جائے جس کے عوض وہ متاثرہ مسلم افراد کو معاوضہ دینے کی پیشکش کررہے ہیں۔