نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو ممبئی کے این جی آچاریہ اور ڈی کے مراٹھے کالج کے جاری کردہ سرکلر پر روک لگا دی، جس میں کالج کے احاطے میں حجاب، نقاب، برقع، ٹوپی اور اس طرح کے دیگر لباس پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ بنچ نے کالج سے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ آزادی کے اتنے سالوں بعد اس طرح کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
عدالت نے مزید کہا کہ شاید کچھ عرصے بعد انہیں احساس ہو جائے گا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جسٹس سنجیو کھنہ کی قیادت والی بنچ نے کالج کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل سے کہا کہ انہیں ایسا کوئی اصول نہیں بنانا چاہیے تھا اور نام مذہب کی عکاسی کرتا ہے۔ بنچ نے کہا، "آپ نہیں چاہتے کہ طلباء کا مذہب ظاہر ہو، ان کا مذہب صرف ان کے نام سے جانا جاتا ہے، کیا آپ ان کا نمبر پوچھیں گے؟"
بنچ میں شامل جسٹس سنجے کمار نے کہا کہ اس کیس میں ایک قانونی مسئلہ پہلے ہی عدالت کے سامنے زیر التوا ہے۔ عدالت نے تعلیمی اداروں کی طرف سے جاری کردہ اس طرح کی ہدایات کے درست ہونے کے بارے میں ابھی فیصلہ کرنا ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ اکتوبر 2022 میں اس وقت کی بی جے پی کی قیادت والی کرناٹک حکومت نے وہاں کے اسکولوں میں حجاب پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کی دو ججوں کی بنچ نے کرناٹک میں حجاب تنازعہ میں الٹا فیصلہ دیا تھا۔
کالج میں 441 مسلم لڑکیاں:
سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ کالج میں مسلم کمیونٹی کی 441 لڑکیاں ہیں اور جب کوئی لڑکی نقاب پہنتی ہے تو اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کالج کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل مادھوی دیوان نے کہا کہ کالج پہلے سے ہی لاکر اور چینج روم فراہم کر رہا ہے۔ اس پر جسٹس کھنہ نے کہا، "انہیں اکٹھے پڑھنا چاہیے۔۔ آپ ٹھیک کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ جس بیک گراونڈ سے آئے ہیں، ان کے خاندان والے کہہ سکتے ہیں کہ انہیں پہننا چاہیے اور اتارنا نہیں چاہیے۔۔"
وکیل نے کہا کہ وہ صرف حجاب پر نہیں بلکہ نقاب پر اصرار کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ اسے نہیں پہنتے۔ اس پر بنچ نے کہا، کیا یہ فیصلہ لڑکی پر نہیں چھوڑنا چاہیے کہ وہ کیا پہننا چاہتی ہے؟ اس کے بعد دیوان نے کہا کہ کل لوگ زعفرانی شالیں پہن کر آئیں گے اور کالج ایسا نہیں چاہتا اور ہم سیاسی کھیل کا میدان نہیں ہیں۔ اس پر بنچ نے پوچھا، ''اچانک کیا آپ کو احساس ہوا کہ ملک میں مختلف مذاہب ہیں؟
تین لڑکیوں پر تنازعہ: