- بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
وَأَتِمُّواْ ٱلۡحَجَّ وَٱلۡعُمۡرَةَ لِلَّهِۚ فَإِنۡ أُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا ٱسۡتَيۡسَرَ مِنَ ٱلۡهَدۡيِۖ وَلَا تَحۡلِقُواْ رُءُوسَكُمۡ حَتَّىٰ يَبۡلُغَ ٱلۡهَدۡيُ مَحِلَّهُۥۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوۡ بِهِۦٓ أَذٗى مِّن رَّأۡسِهِۦ فَفِدۡيَةٞ مِّن صِيَامٍ أَوۡ صَدَقَةٍ أَوۡ نُسُكٖۚ فَإِذَآ أَمِنتُمۡ فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلۡعُمۡرَةِ إِلَى ٱلۡحَجِّ فَمَا ٱسۡتَيۡسَرَ مِنَ ٱلۡهَدۡيِۚ فَمَن لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ ثَلَٰثَةِ أَيَّامٖ فِي ٱلۡحَجِّ وَسَبۡعَةٍ إِذَا رَجَعۡتُمۡۗ تِلۡكَ عَشَرَةٞ كَامِلَةٞۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمۡ يَكُنۡ أَهۡلُهُۥ حَاضِرِي ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ (196)
ترجمہ:اور (جب حج وعمرہ کرنا ہو تو اس) حج وعمرہ کو اللہ تعالیٰ کے واسطے پورا ادا کیا کرو۔ پھر اگر (کسی دشمن یا مرض کے سبب) روک دیے جاؤ تو قربانی کا جانور جو کچھ میسر ہو (ذبح کرو) اور اپنے سروں کو اس وقت تک مت منڈاؤ جب تک کہ قربانی اپنے موقع پر نہ پہنچ جاوے ( اور وہ موقع حرم ہے کہ کسی کے ہاتھ وہاں جانور بھیجدیا جائے) البتہ اگر کوئی تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو (جس سے پہلے ہی سر منڈوانے کی ضرورت پڑجائے) تو (وہ سر منڈواکر) فدیہ (یعنی اس کا شرعی بدلہ) دیدے (تین) روزے سے یا (چھ مسکین کو) خیرات دینے سے یا ( ایک بکری) ذبح کردینے سے پھر جب تم امن کی حالت میں ہو (یا تو پہلے ہی سے کوئی خوف پیش نہ آیا ہو یا ہو کر جاتارہاہو) تو جو شخص عمرہ کو حج کے ساتھ ملاکر منتفع ہوا ہو (یعنی ایام حج میں عمرہ بھی کیا ہو) تو جو کچھ قربانی میسر ہو (ذبح کرے اور جس نے صرف عمرہ یا صرف حج کیا ہو اس پر حج وغیرہ کے متعلق کوئی قربانی نہیں) پھر جس شخص کو قربانی کا جانور میسر نہ ہو تو (اسکے ذمے) تین دن کے روزے ہیں (ایام) حج میں اور سات ہیں جبکہ حج سے تمہارے لوٹنے کا وقت آجاوے یہ پورے دس ہوئے۔ یہ اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل (و عیال) مسجد حرام (یعنی کعبہ) کے قرب (ونواح) میں رہتے ہوں (یعنی قریب ہی کا وطن دارنہ ہو) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو (کہ کسی امر میں خلاف نہ ہوجائے) اور جان لو کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ (بیبا کی اور مخالفت کرنے والو نکو) سزائے سخت دیتے ہیں۔ (1)
1- عورت کو سر منڈانا حرام ہے وہ صرف ایک ایک انگل بال کاٹ لے ۔ 2 ۔ حج تین طرح کا ہوتا ہے افراد کہ ایام حج میں صرف حج کیا جائے۔ اور تمتع اور قرآن جن میں ایام حج میں عمرہ اور حج دونوں کیسے جاویں افراد ہر شخص کو جائز ہے اور تمتع اور قرآن صرف ان لوگوں کو جائز ہے جو میقات کے حدود سے باہر رہتے ہیں اور جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہیں ان کے لیے تمتع اور قرآن کی اجازت نہیں ہے۔
ٱلۡحَجُّ أَشۡهُرٞ مَّعۡلُومَٰتٞۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ ٱلۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي ٱلۡحَجِّۗ وَمَا تَفۡعَلُواْ مِنۡ خَيۡرٖ يَعۡلَمۡهُ ٱللَّهُۗ وَتَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَيۡرَ ٱلزَّادِ ٱلتَّقۡوَىٰۖ وَٱتَّقُونِ يَٰٓأُوْلِي ٱلۡأَلۡبَٰبِ (197)
ترجمہ:(زمانہ) حج چند مہینے ہیں جو معلوم ہیں (شوال، زیقعد اور دس تاریخیں ذی الحج کی) سو جو شخص ان میں حج مقرر کرلے تو پھر (اسکو) حج میں نہ کوئی فحش بات (جائز) ہے اور نہ کوئی بےحکمی (درست) ہے اور نہ کسی قسم کا نزاع (زیبا) ہے اور جو نیک کام کرو گے خدا تعالیٰ کو اس کی اطلاع ہوتی ہے اور (جب حج کو جانے لگو) خرچ ضرور لے لیا کرو کیوں کہ سب سے بڑی بات خرچ میں (گدا گدی سے) بچارہنا ہے اور اے ذی عقل لوگو مجھ سے ڈرتے رہو۔
لَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ أَن تَبۡتَغُواْ فَضۡلٗا مِّن رَّبِّكُمۡۚ فَإِذَآ أَفَضۡتُم مِّنۡ عَرَفَٰتٖ فَٱذۡكُرُواْ ٱللَّهَ عِندَ ٱلۡمَشۡعَرِ ٱلۡحَرَامِۖ وَٱذۡكُرُوهُ كَمَا هَدَىٰكُمۡ وَإِن كُنتُم مِّن قَبۡلِهِۦ لَمِنَ ٱلضَّآلِّينَ (198)
ترجمہ:تم کو اس میں (ذرا بھی) گناہ نہیں کہ (حج میں) معاش کی تلاش کرو جو تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے (4) پھر جب تم لوگ عرفات سے واپس آنے لگو تو مشعر حرام کے پاس (مزدلفہ میں شب کو قیام کرکے) خدا تعالیٰ کی یاد کرو (5) اور اس کو اس طرح سے یاد کرو جس طرح تم کو بتلا رکھا ہے (نہ یہ کہ اپنی رائے کو دخل دو ) اور حقیقت میں قبل اس کے تم (محض) ناواقف (ہی) تھے۔
4 - حج میں تجارت مباح یقینا ہے اب رہی یہ بات کہ اخلاص کے خلاف تو نہیں سو اس میں اس کا حکم مثل اور مباحات کے وارد ہوا ہے۔
5 - زمانہ جاہلیت میں قریش چونکہ اپنے آپ کو مجاور حرام سمجھتے تھے اور مزدلفہ حرم میں ہے اور عرفات حرم سے باہر ہے۔ اس لیے یہ لوگ عرفات میں نہ جاتے تھے، مزدلفہ ہی میں ٹھہر کر وہاں سے لوٹ آتے تھے اللہ تعالی نے اس آیت میں ان احکام کا عام ہونا بتلا دیا۔
ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنۡ حَيۡثُ أَفَاضَ ٱلنَّاسُ وَٱسۡتَغۡفِرُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ (199)
ترجمہ:پھر تم سب (کو ضرور ہے کہ اسی جگہ ہوکر) واپس آؤ جہاں اور لوگ (جاکر وہاں سے) واپس آتے ہیں اور (احکام حج میں پرانی رسموں پر عمل کرنے سے) خدا تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو یقیناالله تعالیٰ معاف کردینگے اور مہربانی فرمائیں گے۔
فَإِذَا قَضَيۡتُم مَّنَٰسِكَكُمۡ فَٱذۡكُرُواْ ٱللَّهَ كَذِكۡرِكُمۡ ءَابَآءَكُمۡ أَوۡ أَشَدَّ ذِكۡرٗاۗ فَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِي ٱلدُّنۡيَا وَمَا لَهُۥ فِي ٱلۡأٓخِرَةِ مِنۡ خَلَٰقٖ (200)
ترجمہ:پھر جب تم اپنے اعمال حج پورے کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو جس طرح تم اپنے اباء و اجداد) کا ذکر کیا کرتے ہو بلکہ یہ ذکر اس سے بدرجہا) بڑھ کر ہو (6) سو بعضے آدمی ( جو کہ کافر ہیں) ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو (جو کچھ دینا ہو) دنیا میں دے دیجیے اور ایسے شخص کو آخرت میں بوجہ انکار آخرت کے) کوئی حصہ نہ ملے گا۔ (200)
6۔ آیت میں جو حکم یاد کا فرمایا اس میں نمازیں بھی داخل ہیں پس یہ ذکر تو واجب ہے باقی ذکر جو کچھ کرے مستحب ہے۔
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
وَأَتِمُّواْ ٱلۡحَجَّ وَٱلۡعُمۡرَةَ لِلَّهِۚ فَإِنۡ أُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا ٱسۡتَيۡسَرَ مِنَ ٱلۡهَدۡيِۖ وَلَا تَحۡلِقُواْ رُءُوسَكُمۡ حَتَّىٰ يَبۡلُغَ ٱلۡهَدۡيُ مَحِلَّهُۥۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوۡ بِهِۦٓ أَذٗى مِّن رَّأۡسِهِۦ فَفِدۡيَةٞ مِّن صِيَامٍ أَوۡ صَدَقَةٍ أَوۡ نُسُكٖۚ فَإِذَآ أَمِنتُمۡ فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلۡعُمۡرَةِ إِلَى ٱلۡحَجِّ فَمَا ٱسۡتَيۡسَرَ مِنَ ٱلۡهَدۡيِۚ فَمَن لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ ثَلَٰثَةِ أَيَّامٖ فِي ٱلۡحَجِّ وَسَبۡعَةٍ إِذَا رَجَعۡتُمۡۗ تِلۡكَ عَشَرَةٞ كَامِلَةٞۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمۡ يَكُنۡ أَهۡلُهُۥ حَاضِرِي ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ (196)
ترجمہ: اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو اور اگر کہیں گھر جاؤ تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو (209) اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے (210) مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے، تو اُسے چاہیے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے (211) پھر اگر تمہیں امن نصیب ہو جائے (212) (اور تم حج سے پہلے مکے پہنچ جاؤ)، تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے، وہ حسب مقدور قربانی دے، اور اگر قربانی میسر نہ ہو، تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر، اِس طرح پورے دس روزے رکھ لے یہ رعایت اُن لوگوں کے لیے ہے، جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں (213) اللہ کے اِن احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
209- یعنی اگر راستے میں کوئی ایسا سبب پیش آجائے، جس کی وجہ سے آگے جانا غیر ممکن ہو اور مجبوراً رک جانا پڑے، تو اونٹ، گائے، بکری میں سے جو جانور بھی میسر ہو، اللہ کے لیے قربان کردو۔
210- اس امر میں اختلاف ہے کہ قربانی کے اپنی جگہ پہنچ جانے سے کیا مراد ہے۔ فقہائے حنفیہ کے نزدیک اس سے مراد حرم ہے، یعنی اگر آدمی راستہ میں رک جانے پر مجبور ہو، تو اپنی قربانی کا جانور یا اس کی قیمت بھیج دے تاکہ اس کی طرف سے حدود حرم میں قربانی کی جائے۔ اور امام مالک اور شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک جہاں آدمی گھر گیا ہو ، وہیں قربانی کر دینا مراد ہے۔ سر مونڈنے سے مراد حجامت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک قربانی نہ کرلو حجامت نہ کراؤ۔
211- حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی طی یا ہم نے اس صورت میں تین دن کے روزے رکھنے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانے یا کم از کم ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔
212- یعنی وہ سبب دور ہو جائے، جس کی وجہ سے مجبوراً تمہیں راستے میں رک جانا پڑا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں حج کا راستہ بند ہونے اور حاجیوں کے رک جانے کی وجہ زیادہ تر دشمن اسلام قبیلوں کی مزاحمت ہی تھی، اس لیے اللہ تعالی نے اوپر کی آیت میں ”گھر جانے “ اور اس کے بالمقابل یہاں ” امن نصیب ہو جانے “ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ لیکن جس طرح گھر جانے “ کے مفہوم میں دشمن کی مزاحمت کے علاوہ دوسرے تمام موانع شامل ہیں، اسی طرح ” امن نصیب ہو جانے “ کا مفہوم بھی ہر مانع و مزاحم چیز کے دور ہو جانے پر حاوی ہے۔
213- عرب جاہلیت میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں ادا کرنا گناہ عظیم ہے۔ ان کی خود ساختہ شریعت میں عمرے کے لیے الگ اور حج کے لیے الگ سفر کرنا ضروری تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قید کو اڑا دیا اور باہر سے آنے والوں کے ساتھ یہ رعایت فرمائی کہ وہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کر لیں۔ البتہ جو لوگ مکہ کے آس پاس میقاتوں کی حدود کے اندر رہتے ہوں انہیں اس رعایت سے مستثنیٰ کر دیا کیونکہ ان کے لیے عمرہ کا سفر الگ اور حج کا سفر الگ کرنا کچھ مشکل نہیں۔
حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھانے سے مراد یہ ہے کہ آدمی عمرہ کر کے احرام کھول لے اور ان پابندیوں سے آزاد ہو جائے، جو احرام کی حالت میں لگائی گئی ہیں۔ پھر جب حج کے دن آئیں، تو از سر نو احرام باندھ لے۔
ٱلۡحَجُّ أَشۡهُرٞ مَّعۡلُومَٰتٞۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ ٱلۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي ٱلۡحَجِّۗ وَمَا تَفۡعَلُواْ مِنۡ خَيۡرٖ يَعۡلَمۡهُ ٱللَّهُۗ وَتَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَيۡرَ ٱلزَّادِ ٱلتَّقۡوَىٰۖ وَٱتَّقُونِ يَٰٓأُوْلِي ٱلۡأَلۡبَٰبِ (197)
ترجمہ: حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، (214) کوئی بد عملی، (215) کوئی لڑائی جھگڑے کی بات (216) سرزد نہ ہو اور جو نیک کام تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں ہوگا سفر حج کے لیے زاد راہ ساتھ لے جاؤ، اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے پس اے ہوش مندو! میر ی نا فرمانی سے پرہیز کرو۔ (217)