- بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
إِذۡ تَبَرَّأَ ٱلَّذِينَ ٱتُّبِعُواْ مِنَ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُواْ وَرَأَوُاْ ٱلۡعَذَابَ وَتَقَطَّعَتۡ بِهِمُ ٱلۡأَسۡبَابُ (166)
ترجمہ:جب کہ وہ لوگ جن کے کہنے پر دوسرے چلتے تھے ان لوگوں سے صاف الگ ہوجاویں گے جو ان کے کہنے پر چلتے تھے اور سب عذاب کا مشاہدہ کرلیں گے اور باہم ان میں جو تعلقات تھے اس وقت سب قطع ہوجاوینگے۔
وَقَالَ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُواْ لَوۡ أَنَّ لَنَا كَرَّةٗ فَنَتَبَرَّأَ مِنۡهُمۡ كَمَا تَبَرَّءُواْ مِنَّاۗ كَذَٰلِكَ يُرِيهِمُ ٱللَّهُ أَعۡمَٰلَهُمۡ حَسَرَٰتٍ عَلَيۡهِمۡۖ وَمَا هُم بِخَٰرِجِينَ مِنَ ٱلنَّارِ (167)
ترجمہ:اور یہ تابع لوگ یوں کہنے لگیں گے کسی طرح ہم سب کو ذرا ایک دفعہ (دنیا میں) جانا مل جاوے تو ہم بھی ان سے صاف الگ ہوجاویں جیسایہ ہم سے (اس وقت) صاف الگ ہو بیٹھے اللہ تعالیٰ یوں ہی ان کی بداعمالیوں کو خالی ارمان کر کے ان کو دکھلا دینگے اور ان کو دوزخ سے نکلنا کبھی نصیب نہ ہوگا۔ (1)
1 ۔ اس عذاب میں کئی طرح کی شدت ثابت ہوئی اور اہل شرک کے عقیدہ کا بطلان ہے آگے اہل شرک کے بعض اعمال کا بطلان ہے جیسے سانڈ کی تعظیم وغیرہ۔
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي ٱلۡأَرۡضِ حَلَٰلٗا طَيِّبٗا وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمۡ عَدُوّٞ مُّبِينٌ (168)
ترجمہ:اے لوگو جو چیزیں زمین میں موجود ہیں ان میں سے (شرعی) حلال پاک چیزوں کو کھاؤ (برتو) اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو فی الواقع وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔ (2)
2 - بعض مشرکین بتوں کے نام پر جانور چھوڑتے تھے اور ان سے منتفع ہونے کو باعتقاد ان کی تعظیم کے حرام سمجھتے تھے اور اپنے اس فعل کو حکم الہی اور موجب رضاء حق وسیلہ تقرب الی الله بواسطه شفاعت ان بتوں کے سمجھتے تھے اس آیت میں اس کی ممانعت کی گئی ہے۔
إِنَّمَا يَأۡمُرُكُم بِٱلسُّوٓءِ وَٱلۡفَحۡشَآءِ وَأَن تَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعۡلَمُونَ (169)
ترجمہ:وہ تم کو انہی باتوں کی تعلیم کرے گا جو کہ شرعا بری اور گندی ہیں اور یہ (بھی تعلیم کرے گا) کہ اللہ کے ذمہ وہ باتیں لگاؤ کہ جس کی تم سند بھی نہیں رکھتے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ٱتَّبِعُواْ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُواْ بَلۡ نَتَّبِعُ مَآ أَلۡفَيۡنَا عَلَيۡهِ ءَابَآءَنَآۚ أَوَلَوۡ كَانَ ءَابَآؤُهُمۡ لَا يَعۡقِلُونَ شَيۡـٔٗا وَلَا يَهۡتَدُونَ (170)
ترجمہ:اور جب کوئی ان (مشرک) لوگوں سے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم بھیجا ہے اس پر چلو تو کہتے ہیں کہ (نہیں) بلکہ ہم تو اسی (طریقہ) پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے کیا اگرچہ ان کے باپ دادا (دین کی) نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ (کسی آسمانی کتابوں کی) ہدایت رکھتے ہوں۔
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
إِذۡ تَبَرَّأَ ٱلَّذِينَ ٱتُّبِعُواْ مِنَ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُواْ وَرَأَوُاْ ٱلۡعَذَابَ وَتَقَطَّعَتۡ بِهِمُ ٱلۡأَسۡبَابُ (166)
ترجمہ:جب وہ سزا دے گا اس وقت کیفیت یہ ہوگی کہ وہی پیشوا اور رہنما، جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی، اپنے پیروؤں سے بے تعلقی ظاہر کریں گے، مگر سزا پا کر رہیں گے اور ان کے سارے اسباب و وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا۔
وَقَالَ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُواْ لَوۡ أَنَّ لَنَا كَرَّةٗ فَنَتَبَرَّأَ مِنۡهُمۡ كَمَا تَبَرَّءُواْ مِنَّاۗ كَذَٰلِكَ يُرِيهِمُ ٱللَّهُ أَعۡمَٰلَهُمۡ حَسَرَٰتٍ عَلَيۡهِمۡۖ وَمَا هُم بِخَٰرِجِينَ مِنَ ٱلنَّارِ (167)
ترجمہ:اور وہ لوگ جو دنیا میں اُن کی پیروی کرتے تھے، کہیں گے کہ کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزاری ظاہر کر رہے ہیں، ہم اِن سے بیزار ہو کر دکھا دیتے۔ (165) یوں اللہ اِن لوگوں کے وہ اعمال جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں، ان کے سامنے اِس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔
165- یہاں خاص طور پر گمراہ کرنے والے پیشواؤں اور لیڈروں اور ان کے نادان پیروؤں کے انجام کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ جس غلطی میں مبتلا ہو کر پچھلی امتیں بھٹک گئیں اس سے مسلمان ہوشیار رہیں اور رہبروں میں امتیاز کرنا سیکھیں اور غلط رہبری کرنے والوں کے پیچھے چلنے سے بچیں۔