علی گڑھ: سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی درجہ کو برقرار رکھا ہے۔ 7 ججوں پر مشتمل آئینی بنچ نے 4-3 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کے لیے 3 ججز پر مشتمل نیا ریگولر بنچ تشکیل دے دیا۔ یہ بنچ ہی اس معاملے میں مزید فیصلہ کرے گی۔ اے ایم یو کو اقلیتی درجہ دینے کی قانونی لڑائی 18 سال سے جاری ہے۔ برسوں کے دوران، اس مسئلے کے حوالے سے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملیں ہیں۔
الہ آباد ہائی کورٹ کی آئینی بنچ 2006 کے فیصلے کے بعد کیس کی سماعت کر رہی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ 2019 میں، سپریم کورٹ کی 3 ججوں کی بنچ نے یہ معاملہ 7 ججوں کی آئینی بنچ کو بھیج دیا تھا۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پارڈی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چندر شرما پر مشتمل بنچ نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد سماعت مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اے ایم یو اور اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکلاء ڈاکٹر راجیو دھون اور کپل سبل نے اپنے دلائل پیش کیے۔ مداخلت کار کی جانب سے سینئر وکیل سلمان خورشید اور سعدان پیش ہوئے۔ مرکزی حکومت کی نمائندگی اٹارنی جنرل آر وینکٹرامنی کے ساتھ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کی۔
اقلیتی درجہ کا کیا مطلب ہے:
دراصل جب کسی بھی اقلیتی ادارے کی اقلیتی حیثیت ختم ہونے پر یونیورسٹی ایکٹ میں تبدیلی کرکے داخلہ ریزرویشن کوٹہ پالیسی تبدیل کردی جاتی ہے۔ داخلہ ریزرویشن کوٹہ پالیسی دیگر یونیورسٹیوں کی طرح ہی لاگو ہوتی ہے۔ یعنی تمام ذاتوں کے لوگوں کو داخلہ میں ریزرویشن کوٹہ دیا جاتا ہے۔ تعلیم سے متعلق حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ حکومت چاہے تو ادارے کی گورننگ باڈی میں تبدیلیاں بھی کر سکتی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ:
سر سید احمد خان نے 1872 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج فنڈ کمیٹی تشکیل دی۔ اس کے بعد 1877 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا آغاز ہوا۔ یہ یونیورسٹی 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ کے ذریعے قائم کی گئی۔ سال 1951 میں یونیورسٹی میں غیر مسلموں کے داخلے کے حوالے سے صورتحال بھی واضح کی گئی۔ کسی بھی ذات اور مذہب کے طلبہ کو داخلہ دیا جانے لگا۔
سپریم کورٹ نے 1967 میں یہ درجہ چھین لیا تھا: