کیفی اعظمی کا نام خصوصی طور پر ترقی پسند تحریک کے حوالے سے زیادہ لیا جاتا ہے اور وہ اس تحریک ایک سچے سپاہی بھی تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری سے ایک زمانے کو متاثر کیا ان کی فلمی نغمے بھی بہت مقبول ہوئے انہوں مختلف موضوعات پر شاعری کی۔
ان کی شاعری میں محنت کش طبقے کو خاص جگہ ملی۔ان کی یوم پیدائش کے موقع پر ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کیفی اعظمی اور ان کی شاعری اور موجودہ حالات پر بات کرتے ہوئے کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر محمد ندیم نے کہا کہ ترقی پسند تحریک شاعری سے قبل جو شاعری ہورہی تھی۔ وہ ایلیٹ سوسائیٹی کی نمائندگی کر رہی تھی لیکن ترقی پسند تحریک کے بعد اردو شاعری میں اجتماعییت کو خصوصی جگہ ملی اور مزدوروں اور متوسط طبقہ کو اور ہماری سماجی نظام کے کشمکش کو اہمیت دی۔
کیفی اعظمی نے بھی اپنی شاعری میں ان موضوعات کو جگہ دی گئی کیفی کے جو ہم عصر شعراء تھے ان میں بہت سے شعراء وہ اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہے لیکن کیفی اعظمی ایک ایسا نام ہے۔ جنہوں نے ترقی پسند تحریک کے بعد جو میلان آیا۔
اس میں بھی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے کیفی اعظمی پر جدیدت کے سب سے بڑے نقاد شمس الرحمن فاروقی نے بھی بہت کچھ لکھا کیفی اعظمی ہر زمانے میں پڑھے جائیں گے ۔کیفی اعظمی پر مزید بات کرتے ہوئے کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر امتیاز وحید نے کہا کہ ایک وقت میں جب مزدوروں پر بہت ظلم ہو رہا تھا لیکن ظلم و زیادتی کے حکومت کو پلٹ دیا گیا۔
ایسے حالات میں ایسے قلم کار پیدا ہوئے جنہوں نے ان مزدوروں اور انقلاب کی ترجمانی کی جب ایسے شعراء اور قلم کار ان کی بات کبھی ختم نہیں ہوتی یہ بات اور ہے کیفی اعظمی پر بہت زیادہ باتیں نہیں ہوئیں کیفی اعظمی نے جس عہد میں آنکھیں کھولی وہ ایک انقلاب آفریں عہد تھا۔
اس عہد عہد میں ہم فیض احمد فیض کو دیکھتے ہیں اسی عہد میں سردار جعفری ،حبیب جالب،میراں جی ن م راشد ہیں کیفی نے بھی اس عہد میں اپنے لئے ایک مستحکم جگہ بنائی اور میں سمجھتا ہوں کہ جب بھی کسی بھی عہد میں ظلم و زیادتی کا بول بالا ہوگا تو کیفی پھر سے زندہ ہوگا۔