مغربی بنگال کے واحد اقلیتی ادارہ ملی الامین کالج کی مدر کمیٹی ملی ایجوکیشنل آرگنائزیشن نے حکومت کے نوٹی فیکشن پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ تعلیم کا یہ نوٹی فیکشن غیرقانونی اورکالج کے اقلیتی کردار کے ساتھ خودمختاری سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔
ملی ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے ممبران نے محکمہ تعلیم کے نوٹی فیکیشن پر کئی اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملی الامین کالج کومرکزی حکومت کے نیشنل کمیشن فار مائناریٹی انسی ٹیوشن کے ذریعہ اقلیتی کردار کادرجہ حاصل ہے۔
سپریم کورٹ نے 18اپریل 2018کو بحال کردیا تھا۔آرٹیکل 30اے اور 29کے تحت اقلیتی اداروں کی کمیٹی کی تشکیل اور عہدیداران کے انتخاب پورا اختیار کالج انتظامیہ کو ہے۔
دوسرے یہ کہ حکومت نے جو اپنے نوٹی فیکشن میں دعویٰ کیا ہے کہ گورننگ باڈی کی تشکیل ہمارے مشورے اور رائے کی بنیاد پرکی گئی ہے یہ سراسر غلط ہے۔
کالج انتظامیہ نے گورننگ باڈی کیلئے کسی بھی نام کی سفارش ہی نہیں کی تھی۔بلکہ نیشنل کمیشن فار مائناریٹی کمیشن کے قوانین کے مطابق جن اداروں کو اقلیتی کردار کا درجہ حاصل ہوگا۔محکمہ تعلیم پہلے کالج کے اپنے قوانین کو منظوری دیتی ہے اس کے بعد گورننگ باڈی کی تشکیل ہوتی ہے۔
تیسرا سب سے بڑا جو اعتراض کیا گیا ہے کہ حکومت نے نوٹی فیکیشن میں ممبران کے ساتھ صرف صدر و سیکریٹری کا ہی انتخاب کیوں کیا ہے۔نائب صدر اور خزانچی کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیاہے۔
دوسرے یہ کہ کالج کے صدر کے عہدہ کیلئے صرف گریجوٹ کا انتخاب کیوں کیا گیاہے؟۔ممبران میں میاں بیوی دونوں کوکیوں شامل کیا گیا ہے۔خیال رہے کہ ابوفضل محمد شمیم اور ڈاکٹر ترنم آرا میاں بیوی ہیں اور دونوں گورننگ باڈی کے ممبران میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ نوٹی فیکشن میں جان بوجھ کر ٹیچر انچارج کو زیادہ اختیارات دیتے ہوئے ممبران میں ٹیچنگ اسٹاف کے دوممبران،نان ٹیچنگ اسٹاف کے ایک ممبر اور طلباء کے ایک ممبر کونامزد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔جب کہ اصولی طور پر یہ سب انتخاب کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ایسی صورت میں ٹیچر انچارج کو منمانی کرنے کا زیادہ موقع مل جائے گا۔ماضی میں بھی زیادہ اختیارات کی وجہ سے کالج کو نقصان ہوچکا ہے۔آرگنائزیشن کے ممبران نے کہا ہے کہ موجودہ کمیٹی پر سیاست کا زیادہ دخل ہے۔
ملی ایجوکیشنل آرگنائزیشن کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے18اپریل 2018کوسپریم کورٹ کے ذریعہ اقلیتی کردار کی بحالی کے بعد کمیٹی محکمہ تعلیم کو اطلاع دی تھی کہ چوں کہ سپریم کورٹ نے ہمارے کالج کے اقلیتی کردار کو بحال کردیا ہے اس لیے کولکاتا ہائی کورٹ کے معطل کیے گئے گورننگ باڈی کو بحال کردیا جائے۔