کولکاتا: جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے نے ایک پرائیوٹ نیوز چینل کو 19 ستمبر 2022 کو انٹرویو دیا تھا۔ پیر کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ترنمول کانگریس کے آل انڈیا جنرل سکریٹری ابھیشیک بنرجی کے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی کے سوال کے بعد کلکتہ ہائی کورٹ سے اس معاملے میں حلف نامہ طلب کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کلکتہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کو اگلے جمعہ تک حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اگلی سماعت اسی دن ہوگی۔ اس سماعت تک سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ معلوم نہیں ہوگا۔
تاہم، جسٹس چندر چوڑ نے پیر کو واضح طور پر کہاکہ جج کسی بھی طرح چینل کو اپنے زیر التواء معاملات کے بارے میں انٹرویو نہیں دے سکتے ہیں۔ اگر انہوں نے انٹرویو دیا ہے تو وہ کیس سننے کا حق کھو چکے ہیں۔ اس صورت میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو یہ ذمہ داری نئے جج کو سونپنی ہوگی۔ دراصل انٹرویو کے وقت ہی جج کے حقوق پر سوال اٹھائے گئے تھے۔ تب جسٹس گنگوپادھیائے نے کہاتھا کہ میں یہ انٹرویو پروٹوکول کے اندر دے رہا ہوں۔ ججز کیا کر سکتے ہیں اس کا خاکہ یہاں ہے۔ اس پروٹوکول میں کہا گیا ہے کہ ججوں کو بھی آزادی حاصل ہے۔ اور میں قانونی نظام کی بات نہیں کر رہا۔ میں کوئی سیاسی بات نہیں کر رہا۔
جسٹس گنگوپادھیائے نے بنگلور پروٹوکول کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے انٹرویو کا دفاع کیا تھا۔ لیکن درحقیقت ججوں کے 'فرائض اور حقوق' سے متعلق ضابطہ دی بنگلور پرنسپلس آف جوڈیشل کنڈکٹ' کہلاتا ہے۔ یہ اصول اقوام متحدہ کی سماجی اور اقتصادی کونسل کی پہل پر 2002 میں بنگلور میں منعقدہ کانفرنس میں تیار کیا گیا تھا۔ اسی سال نومبر میں، بنگلورو میں گول میز اجلاس کا مقصد عدلیہ کو مضبوط اور مستحکم کرنا تھا۔ کل چھ موضوعات آزادی، غیر جانبداری، یکجہتی، حقوق، مساوات، اور میرٹ اور محنت پر زور دیا گیا ہے۔
بنگلورو اصولوں کے 'حقوق' باب میں بتایا گیا ہے کہ جج کیا کر سکتے ہیں۔ وہاں، اصول نمبر 4.6 کہتا ہے کہ ایک جج کو کسی بھی دوسرے شہری کی طرح اظہار رائے، عقیدہ، سماجی میل ملاپ کی آزادی ہوگی۔ تاہم، اس حق کا استعمال کرتے ہوئے، جج کو ہمیشہ عدالتی دفتر کے تقدس، غیر جانبداری اور آزادی کوملحوظ رکھنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:Teachers Recruitment in South 24 PGS دو ماہ کے اندر 420 پرائمری اسکولوں میں اساتذہ تقرری کی ہدایت
عام طور پر عدالت کے قوانین کہتے ہیں کہ متعلقہ عدالت کا چیف جسٹس فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا کیس کس جج کے بنچ میں ہوگا۔ اس 'روسٹر' کو فالو کرنا ہوگا۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کیس کی بنچ کو تبدیل کر سکتے ہیں اگر سپریم کورٹ کوئی خاص حکم دیتا ہے۔